محبت کا قتل مت کرو
آج کے اس جدید دور میں آخرکسی کو محبت کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے
سب کی نظریں کیرالہ کی اس بہادر نو جوان خاتون ہادیہ پر تھیں جو سپریم کورٹ میں اپنے کیس کی سنوائی کے لئے نئی دہلی آئی تھی۔ پورے عزم کے ساتھ وہ عدالت میں کھڑی تھی اور یہ عزم وہ تھا جو صرف محبت کے جذ بہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی آزادی کے لئے دہلی پہنچی تو وہ پر اعتماد تھی اور اس کے چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ اپنے والدین کی بیڑیوں سے آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ مل کر زندگی گزارنا چاہتی ہے۔
تصور کیجئے کہ آج کی تاریخ اور اس دور میں ایک تعلیم یافتہ خاتون یہ گہار لگا رہی ہےکہ وہ اپنی محبت اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ ہمیں اس کی سزا دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں آخر؟ کیا صرف اس لئے کہ اس نے ایک مسلمان نوجوان سے محبت کی ،مذہب تبدیل کیا اور اس سے شادی کی تاکہ بقیہ زندگی خوشی خوشی گزارے۔
ظاہر ہے اس نے اپنے ان والدین کا سامنا کیا جن کے سامنے آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کی باتیں کر کے جھوٹے دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ان تنطیموں کا جو ہائپ تیار کیا گیا ہے وہ سیاسی حکمرانوں کی ایک اور سازش نظر آتی ہے۔ اس ساری صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کے لئے پورے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے تمام طرح کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اس آلودہ ماحول میں مسلم مخالف آوازیں بڑھ رہی ہیں۔ ریاستیں اس کو روکنے کے لئے تھوڑا بہت ہی کر رہی ہیں۔ اور سیاسی حکمران ایسا ہی چاہتے بھی ہیں۔ حکومت چلانے کے تعلق سے ان کو زیادہ کچھ نہیں کرنا ،کیونکہ بیکار کی باتوں کی وجہ سے حقیقی مسائل دب کر رہ گئے ہیں اور یہ حقیقی مسائل کبھی حل کرنے کے مقام تک پہنچتے ہی نہیں۔
پچھلی دہایوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں درجنوں افراد موت کی نذر ہو جاتے تھے لیکن آج کا فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ملک کے مسلمانوں کے تعلق سے پتہ نہیں کیاکچھ کہا جارہا ہے۔ اس پر بحث ہو رہی ہے کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور کیا پہنتے ہیں؟ لنچنگ صرف گائے کے نام پر ہی نہیں ہورہی بلکہ مسلمانوں کو اس لئے بھی قتل کیا جا رہا کہ اس نے اپنا سر رومال یا اسکارف سے ڈھکا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اتر پردیش سے گزر رہی ٹرین میں سفر کر رہے تین مذہبی پیشواؤں پر حملہ کر دیا گیا۔ ان کا گناہ صرف اتنا تھا کہ وہ جولباس زیب تن کیے ہوئےتھے اس سے وہ مسلمان نظر آ رہے تھے۔
آج ماحول اس لئے تشویشناک ہے کیونکہ ’دوسرے‘ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے اوریہ احساس مزید بڑھے گا جیسے جیسے فرقہ وارانہ ماحول میں شدت آئےگی۔ مسلمان اور ہندوؤں کی الگ الگ کالونیوں میں ایک دوسرے سے دور رہنے کی وجہ سے جو آپس کا تبادلہ خیال کم ہو رہا ہے وہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ممبئی یونیورسٹی کے دورہ کے دوران مجھے ایک استادنے بتایا کہ اس ’دوسرے‘پروپیگنڈے کی وجہ سے ہندو اور مسلمان کے درمیان محبت نہ کے برابر ہی ہوتی ہے اور اس غلط نظریہ کو توڑنے کے لئے کوئی ذریعہ بھی نظر نہیں آتا۔ ایسا اس لئے ہے کہ ممبئی میں ہندو اور مسلمان اپنی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں پھر کس طرح سے عام مسلم خاندان کے رہن سہن کا اندازہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہےکہ اپنی بستیوں اور محلوں میں رہنے کا رجحان دیگر قصبوں اور شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور اس کا سیدھا تعلق اس ’دوسرے‘ کے بڑھتے خدشہ سے ہے۔
میں اس فرقہ وارانہ زہر کے پھیلتے خطرات کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی لیکن جب میں ایک روزہ اجلاس میں شرکت کے لئے احمدآباد پہنچی تو مجھے اس کا احساس اس وقت ہوا۔ یہ کچھ سال پہلے کی بات ہے لیکن آج تک اس ٹیکسی ڈرائیور کے زہر آلودہ الفاظ میرے ذہن میں تازہ ہیں جو مجھے ہوائی اڈے سے لے کر گیا تھا۔ سفر کے آخر تک اس کو اس بات کا احساس نہیں ہو اکہ میں مسلمان ہوں اور وہ مستقل بولتا گیا کہ احمدآباد میں مسلمان کیا کرتے ہیں ’’یہ لوگ بم بناتے ہیں، یہ لوگ بچے پیدا کرتے ہیں، ان لوگوں کو مارنا ہے، یہاں سے نکالنا ہے، مارنا۔کاٹنا ہے‘‘۔ یہ ٹیکسی ڈرائیور جس کا تعلق راجستھان سے تھا اور اس نے زیادہ وقت احمدآباد میں گزارا تھا اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ اس کو تو مسلم طبقہ کے تعلق سے یہ ہی بتایا گیا ہے کہ وہ تشدد میں یقین رکھتے ہیں اور گالی گلوچ کرتے ہیں۔
میں نے اپنے سابقہ کالموں میں بھی یہ ذکر کیا ہے کہ ٹرین کے سفر کےدوران میں نے مسلمانوں کے تعلق سے سب سے زیادہ فرقہ وارانہ اور متعصب جملے سنے ہیں۔ میں نے کبھی اس خوف سے ان کو جواب دینے کی بھی کوشش نہیں کی کہ کہیں یہ مجھے ٹرین کے ڈبے سے باہر نہ پھینک دیں۔ میری معلومات کے مطابق ایسے فرقہ وارانہ ماحول سے نمٹنےکے لئے کوئی ہیلپ لائن نمبر بھی نہیں ہے اور جس تیزی کے ساتھ ٹرینوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر یہ ضروری ہو گیاہے کہ ایسے ماحول کے لئے ایمرجنسی ٹیلیفون نمبر موجود ہوں۔
ہادیہ کے معاملے پر واپس آتی ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ اس کے آئینی حقوق کا تحفظ ہو اور اس کا یہ حق نہ چھینا جائے۔ اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی سے بھی محبت کرے اور محبت کرنے والے شخص کے ساتھ زندگی گزارے۔ محبت محبت ہے اور اس میں کسی کو گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ سیاست داں اس میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں چاہے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہوں جو اینٹی رومیوں اسکویڈ بناتے ہیں یا دیگر حکومتیں ہو ں جو مسلمانوں کو آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسی تنظیموں سے جوڑتی ہیں۔ کیا ہم کو اس بات کا پتہ ہے کہ ان نیٹورک کے سینکڑوں نام ہو سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ اور یہودی ایجنسیوں کی گرفت میں ہیں۔
اس آلودہ ماحول میں محبت کوقتل نہیں کرنے دیا جائے اور ان لوگوں کو پریشان نہ کرنے دیا جائے جن کو محبت جیسی نعمت نصیب ہوئی ہے۔ میں اس کو بتانے میں پریشانی محسوس کر رہی ہوں کہ ایک طرف تو ہم نے لیو۔ان رشتہ کو منظور کر لیا ہے لیکن دوسری طرف ہم اس کی شادی کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس نے نہ صرف اپنی محبت کا اعلان کیا ہے بلکہ شادی کے لئے تمام رکاوٹوں کو بھی عبور کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Dec 2017, 9:25 AM