سونیا گاندھی کی قیادت میں ہی یو پی اے کے دوران عام لوگوں کو طاقت ملی... نتن راؤت

مرکز میں جو حکومت ہے، اس نے ’آندولن جیوی‘ بتا کر سول سوسائٹی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر قہر ڈھایا ہوا ہے، جب کہ اس کے برعکس سونیا جی نے لوگوں کے ایشوز پر کام کرنے کے لیے انھیں اپنے ساتھ جوڑا تھا۔

سونیا گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
سونیا گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

9 دسمبر، 1949 ایک باوقار تاریخ ہے، جب ہندوستانی آئین ساز اسمبلی کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ برطانوی حکومت کے ماتحت 200 سال بعد ملک کو خود مختار سماجی سیکولر جمہوریت میں بدلنے کے لیے بنیادی قدم کے طور پر اس آئین ساز اسمبلی کی آزادانہ طریقے سے تشکیل کی گئی تھی۔ اسے ہندوستانی آئین تیار کرنے کا ذمہ دیا گیا تھا۔ اس خاص دن کے لیے چیزیں خاص طور سے یکجا ہو گئی تھیں اور ہندوستان سے بہت دور لسیانا، اٹلی میں ایک بچی کی پیدائش ہوئی۔ کون جانتا تھا کہ ہندوستانی آئین اور یہ باوقار بچی ہندوستان میں بہتری لانے کے اسباب بنیں گے۔ جی، یہاں جس شخصیت کا میں تذکرہ کر رہا ہوں، وہ محترمہ سونیا گاندھی ہیں جو 75 سال کی عمر میں بھی یو پی اے اور انڈین نیشنل کانگریس کی صدر کے طور پر ملک کی مضبوطی کے ساتھ خدمت کر رہی ہیں۔

اپنے ملک نے اپنے دو وزرائے اعظم کی شہادت برداشت کی ہے، لیکن محترمہ گاندھی کے لیے یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ایک تو ان کی ساس تھیں، اور دوسرے ان کے شوہر۔ پھر بھی آج کئی لوگ رائٹ وِنگ پروپیگنڈہ پر یقین کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ گزشتہ 70 سال میں گاندھی فیملی نے ملک کے لیے کیا کیا ہے۔ ذاتی نقصانات اور ان مسائل کو جنھیں انھوں نے برداشت کیا ہے، یا جو بے مطلب کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں، ان کی پروا نہ کرتے ہوئے محترمہ گاندھی نے صبر والی مسکان کے ساتھ دنیا کا سامنا کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔


ان کا سفر صرف ان اونچائیوں میں نہیں باندھا جا سکتا جو انھیں ہندوستانی سیاست میں حاصل کی ہیں۔ ان کی اہم خصوصیات میرے جیسے دوسرے کروڑوں لوگوں کو ترغیب دیتی رہیں گی۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے ہر کردار میں اپنے کو ڈھالا ہے، تقریباً نصف صدی پہلے سیدھی سادھی مہمان اور بہو سے لے کر درگا تک جو آج وہ ہیں۔

مجھے یاد ہے 2004 میں جب این ڈی اے مرکز میں برسراقتدار تھا، تب ملک کے مختلف حصوں میں کروڑوں کسانوں نے خشک سالی کا سامنا کیا تھا۔ میں نے ناگپور کے کستورچند پارک میں ’آئین بچاؤ ریلی‘ کا انعقاد کیا تھا۔ محترمہ گاندھی نے تعلیم کو بھگوا کرنے اور قانون کی کتاب کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کے لیے واجپئی حکومت پر برس کر ریلی پر بڑا اثر ڈالا تھا۔ ریلی نے کانگریس کارکنان میں جوش بھر دیا اور اس سال ہوئے انتخابات میں ہماری فتح میں مدد ملی۔ محترمہ گاندھی نے 60 ریلیوں کو خطاب کرتے ہوئے 64 ہزار کلومیٹر کا سفر کیا جس سے اس سال ہمارے 60 میں سے 52 امیدواروں کی جیت ہوئی۔


سونیا گاندھی نے یو پی اے کی چھتری کے نیچے ملک کی سبھی لبرل اور جمہوری پارٹیوں کو لا کر اور پچھلی حکومت کی ’انڈیا شائننگ‘ کی تشہیر کو جھوٹا ثابت کر اس فتح کو مٹھی میں کر لیا۔ میری نظر میں وہ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ذریعہ قائم نظریات کی بہترین طالب علم ہیں۔ تب سے انھوں نے حکومت کے مرکز میں عام آدمی کو بنائے رکھنا سیکھ لیا۔ محترمہ اندرا گاندھی سے منصوبوں کے عمل درآمد اور وعدوں کو پورا کرنے کی ہنرمندی سیکھی ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کو لے کر جو سماجی اور معاشی ترقی کے عمل میں پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔

محترمہ سونیا گاندھی زمین سے جڑی شخصیت ہیں، جنھوں نے سماجی اور معاشی پیرامڈ کے بالکل نیچے کے لوگوں کے لیے کام کرنا منتخب کیا۔ لوگ آج اقتدار کے لیے ترستے ہیں اور فیصلہ لینے کے عمل کے مرکز میں بننا چاہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں، محترمہ گاندھی استثنیٰ ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں کئی مواقع پر سیاسی طور پر اہم عہدوں کی قربانی دی۔ پہلا مئی 2004 میں کانگریس کی قیادت والے یو پی اے کو جب اقتدار حاصل ہوا، اس کے فوراً بعد انھوں نے وزیر اعلیٰ عہدہ لینے سے منع کر دیا۔ پھر 2006 میں این ڈی اے کے ’فائدہ کے عہدہ‘ کو لے کر منصوبہ بند طریقے سے تنازعہ کھڑا کرنے پر انھوں نے قومی مشیر کونسل (این اے سی) کے صدر عہدہ اور لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔


این اے سی اہم ترقی پذیر سرکاری یونٹ تھی جس نے ہندوستان کی تاریخ میں سب سے اہم اصلاحی اور اختیارات پر مبنی قانون بنانے میں کردار نبھایا۔ اس ضمن میں این اے سی کی سربراہ ہونے اور ان کی شناخت غیر ملکی نژاد کے ہونے کی وجہ سے این ڈی اے کے ذریعہ سازش کے تحت ان پر کیے گئے حملے بالکل غلط ہیں۔ ہندوستان کی عوام نے یقیناً ہی ان کے بارے میں مختلف طریقے سے سوچا اور بار بار ان کے حق میں ووٹ دیے۔ محترمہ سونیا گاندھی پر جھوٹے الزامات صرف اس وجہ سے لگائے گئے کیونکہ انھوں نے عام لوگوں کو طاقت بخشی اور سماج میں ذات، طبقہ اور جنس کی بناوٹوں کی ترتیب کو ختم کر دیا۔ ابھی مرکز میں جو حکومت ہے، اس نے ’آندولن جیوی‘ بتا کر سول سوسائٹی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر قہر ڈھایا ہوا ہے، جب کہ اس کے برعکس سونیا جی نے لوگوں کے ایشوز پر کام کرنے کے لیے انھیں اپنے ساتھ جوڑا۔

اس لیے ذرا اس پر نظر ڈالیں کہ یو پی اے اور این اے سی سربراہ کے طور پر انھوں نے ملک کو کیا دیا اور موجودہ بی جے پی حکومت نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ اطلاع کا حق قانون، 2005 نے سرکاری کام میں شفافیت لائی۔ لیکن 2014 میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، جب تک لوگ عدالت نہیں گئے، ایک بھی مرکزی انفارمیشن کمشنر کی بحالی نہیں ہوئی۔ منریگا نے دیہی عوام کو روزگار گارنٹی دی۔ لیکن مرکز کے خزانہ کے آدھے ادھورے ڈھنگ سے استعما کی وجہ سے اس سکیم کو فنڈ کی کمی ہو گئی ہے اور اضافی بجٹ کا انتظام نہیں کیا جا رہا ہے۔ افسوسناک یہ ہے کہ منریگا کا 8686 کروڑ روپے کا کل بقایہ منفی میں ہے۔


اسی طرح تعلیم کا حق قانون کو ایسی نئی تعلیمی پالیسی، 2020 کے ذریعہ کمزور کر دیا گیا ہے جس کا زور تعلیم کی نجکاری پر ہے۔ موجودہ کورونا وبا کے دوران ہم نے فوڈ سیکورٹی کی حالت دیکھی ہی ہے۔ اراضی محصول، باز آبادکاری اور از سر نو بحالی قانون، 2013 میں مناسب معاوضہ اور شفافیت کو سبھی بی جے پی حکمراں حکومتوں نے کمزور کر دیا ہے۔ جنگل حقوق قانون، 2006 نے قبائلیوں کے حقوق کے تحفظ اور ترقی کو یقینی کیا تھا۔ انسانی غلاظت ڈھونے والے لوگوں اور ان کی باز آبادکاری قانون، 2013 میں دلتوں کے انسانی غلاظت ڈھونے کے طور پر تقرری پر روک لگائی گئی تھی اور ان کی باز آبادکاری کا انتظام کیا گیا تھا۔ وسائل اور مواقع کی یکساں تقسیم کے لیے عوامی محصول پالیسی نے لازمی کیا تھا کہ مرکزی سرکاری محکمہ اور ادارہ اپنی خرید کے ایم ایس ایم ای سے 20 فیصد لیں گے اور ان میں سے 4 فیصد ایسے ایم ایس ایم ای سے لیں گے جنھیں ایس سی/ایس ٹی کاروباری چلاتے ہیں۔

سونیا جی نے ایس سی/ایس ٹی (انسداد ظلم) قانون، 1989 کو مضبوط کیا تھا جسے 2014 میں آرڈیننس کی شکل میں شرمندہ تعبیر اور پاس کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس بی جے پی حکومت نے ایس سی/ایس ٹی (انسداد ظلم) قانون سے بدل دیا۔ ملک بھر میں چھ ماہ تک مخالفت کے بعد اسے ایک دیگر آرڈیننس سے بدل کر مضبوط کیا گیا۔


محترمہ سونیا گاندھی نے اداروں میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی سیدھی تقرری اور ترقی کے ذریعہ سول خدمات میں تقرریوں یا عہدوں کے ریزرویشن کے انتظام کے لیے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (عہدوں اور خدمات میں ریزرویشن) بل، 2008 کو بھی آگے بڑھایا۔ انھوں نے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کے لیے پروموشن کے معاملوں میں فالو اَپ اختیار کے ساتھ ریزرویشن دینے کے لیے 117ویں آئین ترمیم بل، 2012 کو بھی آگے بڑھایا۔ اسی طرح راجیہ سبھا میں خاتون ریزرویشن بل، 2021 پاس کرانے کے لیے انھوں نے پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر حمایت جمع کی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کانگریس کے پاس اپنی اکثریت ہوتی، تو پارلیمنٹ میں قوانین کے ذریعہ زیادہ سماجی اور معاشی بدلاؤ لائے جاتے۔

عوام کے لیے کام کرنے کے لیے مضبوط عزائم اور صاف ارادے ضروری ہیں۔ محترمہ سونیا گاندھی نے سب سے طویل وقت تک سربراہ رہتے ہوئے کانگریس میں طاقت بھر دی ہے، خاص طور سے ایسے وقت میں جب تباہ کار طاقتیں سرگرم ہیں۔ ہندوستان کو ان کے جیسے مضبوط لیڈروں کی سخت ضرورت ہے جنھوں نے لبرل جمہوری سیاست اور سماجی قوتوں کو ان چیلنج بھرے حالات میں متحد کر رکھا ہے۔ محترمہ گاندھی میرے سمیت کئی کانگریس کارکنان کے لیے گائیڈ اور سرپرست رہی ہیں اور ہمارے سابقین کے ذریعہ تصور کیے گئے ہندوستان میں سماجی اور معاشی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی سمت میں کام کرنے کے لیے کروڑوں لوگوں کو ترغیب دی ہے۔


(مضمون نگار ڈاکٹر نتن راؤت مہاراشٹر حکومت میں وزیر توانائی ہیں۔ وہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے درج فہرست ذات سیل کے سربراہ بھی ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔