یومِ اطفال: ’بچپن‘ پر چہار جانب سے ہوتے حملے... حمرا قریشی

کئی نوعمر بچوں کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پولیس انھیں کسی معاملے میں اٹھا کر لے جاتی ہے۔ جب انھیں پولیس رِہا کر دیتی ہے تو بھی ان کے نام ریکارڈس اور رجسٹرس میں موجود ہوتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

حمرا قریشی

یوم اطفال یعنی 14 نومبر قریب ہے۔ اس دن سیاسی حکمرانوں کی تقریریں خوب سننے کو ملیں گی، لیکن ان مخصوص تقاریر میں ملک کے لاپتہ بچوں کے حوالے سے کچھ خاص بات نہیں ہوگی۔ جی ہاں، ہندوستان کے لاپتہ بچے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہزاروں بچے لاپتہ ہیں، پھر بھی ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ ہندوستان میں 174 بچے روزانہ لاپتہ ہو رہے ہیں، اور ان میں سے نصف ہنوز لاپتہ ہیں۔ لاپتہ ہونے والے بچوں میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے، ان کا فیصد لڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔

موجودہ دور کے لیڈران اپنی شاندار مصنوعی تقریروں میں اپنی کئی طرح کی کارگزاریوں کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ہمارے سینکڑوں اور ہزاروں بچے لاپتہ ہیں۔ آخر وہ کہاں ہیں؟ انہیں کون ڈھونڈے گا؟ اور کب؟ کیا ان بچوں کو اغوا کر لیا گیا ہے، یا چوری کر کے فروخت کر دیا گیا ہے؟ اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ بچوں کی چوری اور پھر ان کا سودا، یا کسی کام کے لیے ان کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس پورے سنڈیکیٹ کو کون چلاتا ہے؟

لاپتہ بچوں میں سے کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سراغ لگا کر تلاش کر لیا گیا۔ اگر اس طرح کوئی ملتا ہے تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ جو بچے تلاش کر لیے گئے وہ کس حالت میں ہیں۔ اگر وہ اپنے والدین یا دادا دادی کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہیں تو کیا ہوگا؟ ان کی دیکھ بھال کے لیے کیا انتظام ہے؟ کیا حکومت کے وہ ’گھر‘ جہاں وہ قیام پذیر ہیں، حقیقی معنوں میں محفوظ ہیں؟ بزرگ شہری ان بچوں کے ساتھ روزمرہ کی بات چیت میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ یہ پورا نظام کتنا شفاف ہے؟ سب سے بڑی بات یہ کہ چیک اینڈ بیلنس کے لیے کون جوابدہ ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پناہ گاہوں کے اندر اور باہر ان بے سہارا بچوں کے ساتھ زیادتی نہ ہو؟

اگر ہم اپنے ان بچوں کی حالت کو بھی وسیع تناظر میں دیکھیں جو لاپتہ نہیں ہوئے ہیں، تو بھی ایک مایوس کن تصویر سامنے آتی ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بچے لاپتہ نہیں ہوئے، لیکن ان کا بچپن لاپتہ ہو گیا ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے بچے جوانی تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ جی ہاں، حالات ایسے ہی ہیں کیونکہ ہمارے بچوں کی بڑی تعداد نقص تغذیہ کا شکار ہے۔ انھیں صحت سے متعلق شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ان کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے والدین مطلوبہ طبی علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، نہ ہی انھیں مختلف بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے لیے مناسب خوراک فراہم کر سکتے ہیں۔


بچوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح فکر انگیز ہے، اور بہت سے بچے کالج تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ مالی، سماجی اور صحت سے متعلق مسائل ان کے لیے رخنات پیدا کرتی ہیں۔ بہت سے بچے تو اپنے ارد گرد پھیلے سیاسی زہر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مافیا انھیں پکڑ کر، اغوا کر کے یا اٹھا کر لے جاتے ہیں اپنی فوج میں بھرتی کرنے کے لیے۔ یہ پیدل سپاہی بنتے ہیں جو عوام میں نفرت کا زہر پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔

کئی جواں سال بچوں کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پولیس انھیں کسی معاملے میں اٹھا کر لے جاتی ہے۔ جب انھیں پولیس رِہا کر دیتی ہے تو بھی ان کے نام پولیس ریکارڈس اور رجسٹرس میں موجود ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی واقعہ پیش آئے، حتیٰ کہ پٹاخہ بھی پھوٹے تو سب سے پہلے انھیں ہی پوچھ تاچھ کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ایسے میں فرقہ وارانہ تعصبات صورت حال کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔

اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہ کریں کہ فسادات اور خانہ جنگی کے دوران نوجوانوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔ غنڈوں کی فوج انھیں شکار بنانے اور مارنے کے لیے نکلتی ہے۔ 2002 میں پیش آئے گجرات قتل عام کے بعد میں نے احمد آباد میں کچھ ماؤں سے ملاقات کی تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ریاست سے باہر رہنے والے رشتہ داروں کے یہاں بھیج دیں گی۔ 2013 کے مظفر نگر فسادات کے دوران بھی بچوں کو دور بھیج دیا گیا تھا تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں اسکول ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ان بچوں کا بچپن برباد ہو گیا اور سینکڑوں معصوم زندگیوں پر اس کے منفی نقوش ثبت کر گئے۔

اب بلڈوزر ایکشن ایک نیا معاملہ ہے جو گھروں کو تباہ کر رہا ہے۔ یقیناً غربت کا گراف عروج پر ہے جو ہمارے بچوں کی صحت اور بقا کو متاثر کر رہا ہے۔ ایسے میں کیا یہ وہ وقت نہیں ہے جب اس ملک کے ذمہ دار شہری کسی گھر یا پورے خاندان کو تباہ ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں؟ ایک مرتبہ جب کسی گھر پر بلڈوزر چل جاتا ہے تو یہ پورے خاندان یا قبیلے کو سڑک پر لا دینے کے مترادف ہے۔ گھر منہدم ہونے کا مطلب ہے کہ نصرف ان کی رہائش بلکہ روز مرہ کی بقا کے لیے ان کا انتہائی اہم اڈہ ختم ہو جانا۔ بلڈوزر ایکشن سے بچوں کے اسکول کی کتابیں، یونیفارم، کپڑے اور باورچی خانہ سب ختم ہو جاتا ہے۔ پھر تو چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی خواہش کو بھی زوردار جھٹکا پہنچتا ہے۔ پھر بھی ہم خاموش تماشائیوں کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے اس تباہی کو دیکھتے ہیں، اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ بلڈوزر سے نہ صرف گھر برباد ہوتے ہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں بچپن بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔