اتر پردیش بی جے پی میں ہر سطح پر انتشار!...سید ضیغم مرتضیٰ
جس طرح سے اتر پردیش میں بی جے پی کی لوک سبھا سیٹیں پہلے کے مقابلے میں کم ہو کر نصف رہ گئی ہیں، اس نے ریاست میں 'پارٹی وِد اے ڈفرنس' کا دعویٰ کرنے والی جماعت کو سر پھٹول کے مقام پر پہنچا دیا ہے
جس طرح سے اتر پردیش میں بی جے پی کی لوک سبھا سیٹیں پہلے کے مقابلے میں کم ہو کر نصف رہ گئی ہیں، اس نے ریاست میں 'پارٹی وِد اے ڈفرنس' کا دعویٰ کرنے والی جماعت کو سر پھٹول کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔
پارٹی رہنما اور کارکن نہ صرف ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں بلکہ وہ پولیس اور بیوروکریسی پر بھی انتخابات کے دوران پارٹی کے خلاف کام کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اپوزیشن نے بھی انتظامیہ پر ووٹروں کو بوتھوں سے بھگانے اور بوتھ کے باہر مسلم ووٹروں کے ساتھ بدتمیزی کرنے الزامات عائد کئے تھے۔
سب سے زیادہ زیر بحث ایودھیا کی وہ جائزہ میٹنگ رہی جس میں ریاست کے دو کابینہ وزراء شامل تھے۔ خبروں کے مطابق میٹنگ کچھ وجوہات کی بنا پر شام دیر گئے اور ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ دونوں عہدیدار بی جے پی کی جائزہ میٹنگ میں کیا کر رہے تھے، تاہم ہنومان گڑھی کے چیف پجاری مہنت راجو داس نے تسلیم کیا کہ ’رات تقریباً 11 بجے‘ انہوں نے پارٹی کی شکست کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انتظامیہ نے لوگوں کو ری ڈیولپمنٹ کے لیے اپنی جائیدادیں خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا جس سے وہ ناراض ہوئے اور اس کی وجہ سے لوک سبھا میں ایودھیا سیٹ پر بی جے پی کی شکست ہوئی۔
میٹنگ سے نکلتے ہی راجو داس کو معلوم ہوا کہان کے 'گنر' یا پرسنل سیکورٹی آفیسر کو فوری طور پر واپس لے لیا گیا ہے۔ میٹنگ میں شریک وزراء میں سے ایک سوریہ پرتاپ شاہی نے پجاری اور عہدیداروں کے درمیان کسی تنازعہ کی تردید کی اور کہا کہ پجاری نے جائزہ اجلاس میں 'بغیر بلائے' شرکت کی تھی۔
پارٹی کے اندر سے ابھرنے والی ’بد نظمی‘ کی یہ واحد اور پہلی مثال نہیں ہے۔ مظفر نگر میں اب بی جے پی کے دو مضبوط رہنماؤں - راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے سنگیت سوم اور امیت شاہ کے قریبی اور جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والے سابق مرکزی وزیر سنجیو بالیان کے درمیان لفظی جنگ عام ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ شاہ کو لکھے خط میں بالیان نے سوم پر راجپوتوں کو ان کے خلاف اکسانے کا الزام لگایا۔ خیال رہے کہ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں ہارنے والے سوم نے اپنی شکست کا ذمہ دار بالیان کو ٹھہرایا تھا۔ سوم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ’’وہ نہ صرف متکبر تھے، بلکہ بدعنوانی کے کئی معاملات میں بھی ملوث تھے۔‘‘ میڈیا کو ایک بیان بھی تقسیم کیا گیا جس میں بالیان پر آسٹریلیا میں زمین کے کئی بڑے پلاٹ خریدنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
پارٹی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تنگ آ کر بی جے پی نے انتخابی نتائج کا جائزہ لینے اور پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کی وجوہات جاننے کے لیے 40 سے زیادہ ٹیمیں تشکیل دیں۔ دراصل، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی وارانسی میں غیر متوقع طور پر کم ووٹوں سے جیت نے پارٹی کے سربراہان کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں، وہیں انہیں ان سیٹوں کی باتیں بھی پریشان کر رہی ہیں جہاں پارٹی نے بہت کم فرق سے کامیابی حاصل کی۔
بی جے پی کارکنوں میں تنازعات نظر آ رہے ہیں اور کئی مقامات پر جائزہ اجلاسوں نے پرتشدد شکل اختیار کر لی۔ سہارنپور، مظفر نگر، ایودھیا، الہ آباد اور سدھارتھ نگر میں جائزہ آپسی لڑائی اور بدسلوکیوں کی نذر ہو گیا۔ سہارنپور سے راگھو لکھن پال نے اپنی شکست کا ذمہ دار مقامی لیڈروں کو ٹھہرایا۔ لیکن سدھارتھ نگر میں سابق وزیر ستیش دویدی اور ایم پی جگدمبیکا پال کے حامیوں نے ایک دوسرے کو زمین پر پٹخ دیا اور مکے برسائے۔
لیڈروں کی جانب سے راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد جیسی ’غلط صلاح‘ سے لے کر ڈبل انجن والی حکومتوں کی طرف سے اپنائی گئی پالیسیوں تک ہر کسی کو مورد الزام ٹھہرانے سے بی جے پی کی سلیقہ سے بنائی گئی وہ شبیہ درہم برہم ہو گئی ہے جس میں اسے ’پارٹی ود اے ڈفرنس‘ اور دھڑے بندی سے پاک ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ ٹریڈ مارک بن چکی فرقہ وارانہ بیان بازی کو بھی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مظفر نگر کے ایک سماجی کارکن نونیت تیاگی نے کہا کہ لوگوں کا ماننا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی علاقے کے لیے اچھی نہیں ہے۔
یوگی کے بعد کون؟
بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں کراری شکست کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔ بی جے پی نے 2019 میں مغربی یوپی میں 26 میں سے 18 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ 2024 میں وہ صرف 13 سیٹیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
انتخابی نتائج آنے سے پہلے ہی اروند کیجریوال نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ اگر مودی اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یوگی یوپی کے وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔ آگ میں گھی ڈالنے والی بات یہ بھی رہی کہ دو نائب وزرائے اعلیٰ میں سے ایک کیشو پرساد موریہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے بلائی گئی میٹنگوں میں مسلسل شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ یوگی کو (امیت شاہ کے ذریعہ یوگی پر مسلط کردہ) موریہ، سنیل بنسل اور سابق آئی اے ایس افسر اروند شرما پر کبھی بھروسہ نہیں رہا۔
یوگی اپنا زیادہ تر وقت گورکھپور کے مٹھ میں گزار رہے ہیں جہاں وہ چیف مہنت بھی ہیں۔ پانچ سال کے وقفے کے بعد انہوں نے ہندو یووا واہنی کے اجلاسوں میں شرکت کرنا شروع کر دی ہے، جو ایک بنیاد پرست ہندو تنظیم ہے جسے انہوں نے بنایا تھا اور پھر تحلیل کر دیا تھا۔ 'ہندو یووا واہنی' کو زندہ کرنے کی کوشش ایک اور علامت ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے!
مانا جا رہا ہے کہ موریہ، شرما اور بنسل قیادت کی تبدیلی کی مہم چلا رہے ہیں۔ یہ تینوں امیت شاہ کے خاص مانے جاتے ہیں۔ شرما گجرات کیڈر کے 1988 بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں اور شاہ کی پہلی پسند ہوں گے۔ راجستھان کے سنیل بنسل کو 2014 میں امیت شاہ کے ساتھ ریاست میں پارٹی تنظیم کا شریک انچارج بنایا گیا تھا، جب کہ کیشو موریہ کے وزیر اعلیٰ عہدے کے لئے عزائم برسرعام ہیں۔ اور وہ تو مان کر بیٹھے ہیں کہ یوگی کو 2024 میں دہلی طلب کر لیا جائے گا۔
بی جے پی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود یوگی کرسی چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ جب تک مودی اور شاہ دہلی میں ان کے جہاز کے اترنے کا انتظام نہیں دیتے، ان کے کسی بھی کھیل کے یوپی میں کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔
2022 کے اسمبلی اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی مضبوط کارکردگی کی وجہ سے ریاست میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) دوبارہ بلندیوں پر ہے اور اس وجہ سے بی جے پی کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ دس اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات ایک فوری امتحان کے طور پر بالکل سامنے ہیں۔ ایس پی 10 میں سے 8 سیٹیں جیتنے کی امید کر رہی ہے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت ڈگمگاتی اور کمزور نظر آتی ہے۔ ایسے میں امید ہے کہ پارٹی یوگی کو غیر مستحکم کرنے سے پہلے دو بار سوچے گی۔
مایاوتی اور آکاش آنند کی کہانی
ریاست میں وجودی بحران کا سامنا کرنے والی دوسری پارٹی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) ہے۔ اس نے اکیلے لوک سبھا انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، ریاست کے 80 لوک سبھا حلقوں میں سے 79 میں امیدوار کھڑے کیے لیکن سبھی کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ سبق سیکھتے ہوئے اور فوری بہتری کے طور پر مایاوتی نے بھتیجے آکاش آنند کی 47 دن کی جلاوطنی کو ختم کر دیا۔ انہیں نادان بتاتے ہوئے مایاوتی نے انتخابات کے دوران اچانک ان کی تمام ذمہ داریاں چھین لی تھیں۔ اب آکاش کی پختگی پر ان کا یقین واپس آ گیا ہے اور آنند کو ان کے جانشین کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
دلت کارکن شری رام موریہ کا خیال ہے کہ اس فیصلے کو بھیم آرمی کے سربراہ اور آزاد سماج پارٹی کے بانی چندر شیکھر کی نگینہ حلقہ سے ڈرامائی جیت کے سلسلے میں بھی دیکھا جانا چاہیے جہاں کبھی بی ایس پی ایک بڑی طاقت تھی۔ تاہم، مبصرین کا خیال ہے کہ مایاوتی کی سب سے بڑی پریشانی دلت ووٹروں کا کانگریس میں منتقل ہونا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہاں جہاں کانگریس کے امیدوار مضبوط تھے، بی ایس پی کے بنیادی ووٹر گروپ جاٹو نے وہاں انڈیا بلاک کو ووٹ دیا۔ اس کا اشارہ مایاوتی کے سماج وادی پارٹی کا ذکر کیے بغیر کانگریس کے خلاف حملے سے بھی ملتا ہے۔
آنند کے نئے کام کا تعین ہو گیا ہے۔ انہیں چندر شیکھر کی شکل میں نمودار ہونے والے نئے چیلنج سے نمٹنا ہوگا اور اس کے لیے انہیں نہ صرف پارٹی تنظیم کو دوبارہ تیار کرنا ہوگا بلکہ ان ووٹروں کو بھی دوبارہ مائل کرنا ہوگا جنہوں نے ہاتھی کی جگہ کسی اور کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔