بیتے دنوں کی بات: کبھی ٹائپ رائٹر دفاتر کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیتے دنوں کی بات ہے جب ٹائپ رائٹر کے بغیر کسی دفتر کا تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا اور ٹائپنگ سیکھنے کے لئے کس جد و جہد سے گزرنا پڑتا تھا۔
اب جب آپ کے پاس ٹائپنگ کی فرصت نہیں ہے تو آپ صرف بول دیتے ہیں او اسکرین پر حروف کی شکل میں بولا ہوا متن آپ کے سامنے ہوتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب آپ کو یہ بولنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی بس آپ سوچیں گے اور وہ اسکرین پر تحریر ہو جائے گا، اس کے لیے ضرور کوئی چپ جلد ہی تیار کر لی جائے گی لیکن ایک زمانہ تھا جب خوشخط والے شخص کی سماج میں بہت ڈیماند اور عزت ہوتی تھی۔ خوشخط والے شخص سے ہی سب ضروری چیزیں لکھوانا چاہتے تھے اور اسی کی وجہ تھی اسکول اور استاذہ بھی اپنے شاگردوں کی تحریر پر بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے۔
پھر ایک وقت وہ آیا جب ٹائپ رائٹر ہر دفتر اور امراء کے گھروں کی ضرورت اور رونق بن گیا اور پہلی مرتبہ تحریر پر ایک کاری ضرب لگی کیونکہ ٹائپ رائٹر کے ذریعہ ایک ہی قسم کے حروف کاغذ پر نظر آتے تھے اور کہیں نہ کہیں اس مشین کے ذریعہ جلدی بھی لکھا جاتا تھا۔
راصل ٹائپ رائٹر حروف کو ٹائپ کرنے کے لیے ایک مکینیکل یا الیکٹرو مکینیکل مشین تھی اور ابھی کہیں کہیں پر ہے بھی جبکہ کمپیوٹر بہت عام ہو چکا ہے۔ ٹائپ رائٹر میں چار لائنوں میں کیز (لوہے کے حروف) ہوتی تھیں۔ جب کسی بھی حرف والی ’کی‘ کو انگلی کے ذریعہ دبایا جاتا تھا تو وہ اوپر اٹھ کر سیاہی والے ربن پر ٹکراتا تھا تھی اور چونکہ اس حروف کی ’کی‘ اور کاغذ کے درمیان صرف سیاہی والا ربن ہوتا تھا تو وہ حروف ربن سے سیاہی لے کر کاغذ پر چھپ جاتا تھا۔ کبھی جب غلط حروف چھپ جاتا تھا تو سفید فلوڈ لگا کر اس پر صحیح حروف کو چھاپ دیا جاتا تھا۔
ٹائپ جاننا کسی بھی آفس میں ملازمت کے لئے لازمی حصہ ہوتا تھا ٹھیک اسی طرح جیسے آج کمپوٹر سے واقفیت لازمی حصہ ہے۔ اس لئے ٹائپنگ سکھانے والے کئی نجی ٹاپنگ سینٹر ہوا کرتے تھے۔ ملازمت کے لئے ٹائپنگ کی کم سے کم اسپیڈ ہونا لازمی حصہ ہوا کرتی تھی اور نوکری کی شرائط میں کم از کم ٹائپنگ اسپیڈ درج ہوا کرتی تھی۔ جب ان سینٹر میں کوئی طالب علم سیکھنے جایا کرتا تھا تو ہمارے زمانے میں ایک گھنٹے سیکھانے کے 35 سے 40 روپے ماہانہ لئے جاتے تھے۔ سکھانے میں پہلے دن سبق ہوتا تھا’ اے ایس ڈی ایف اور سیمی کالن ایل کے جے ‘جس پر کچھ دنوں تک مہارت حاصل کی جاتی تھی اور آخری سبق کے طور پر ایک لائن ہوتی تھی جس میں انگریزی کے تما م حروف آ جاتے تھے اور وہ لائن تھی The quick brown fox jumps over the lazy dog
یعنی’ دا کویک براؤن فوکس جمپس اوور دا لیزی ڈاگ‘ اور اس پر کئی دن تک مہارت حاصل کی جاتی تھی۔
ویسے تو ٹائپ رائٹر بنانے والی دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ریمنگٹن تھی لیکن ہندوستان میں گودریج اینڈ بوائس نامی کمپنی تھی جس نے سنہ 2009 میں ٹائپ رائٹر بنانا بند کر دیا تھا کیونکہ ہر دفتر میں کمپیوٹر عام ہو گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹائپ رائٹر کی ایجاد کسی ایک فرد سے منسوب نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ اس سمت میں پہلی مرتبہ کام 1575 میں ہوا تھا ۔ 1575 میں، ایک اطالوی پرنٹ میکر، فرانسسکو رامپازیٹو نے کاغذات میں حروف کو متاثر کرنے والی مشین بنائی تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو ٹائپ رائٹر ہر دفتر کا لازمی حصہ بن گیا تھا اس کی ابتدا دراصل نابینہ افراد کو لکھنے میں مدد کے لئے شروع کی تھی۔ 1802 میں، اطالوی آگسٹینو فنٹونی نے اپنی نابینا بہن کو لکھنے کے قابل بنانے کے لیے ایک خاص ٹائپ رائٹر تیار کیا تھا۔ اسی طرح 1801 اور 1808 کے درمیان، اطالوی پیلیگرینو ٹوری نے نابینا دوست کاؤنٹیس کیرولینا فانٹونی دا فیویزانو کے لیے ٹائپ رائٹر ایجاد کیا۔
لیکن 1829 میں، امریکی ولیم آسٹن برٹ نے "ٹائپوگرافر" کے نام سے ایک مشین کا پیٹنٹ کروایا جو کہ بہت سی دوسری ابتدائی مشینوں کے ساتھ عام طور پر "پہلے ٹائپ رائٹر" کے طور پر درج ہیں۔ لندن سائنس میوزیم اسے محض "پہلے تحریری طریقہ کار کے طور پر بیان کرتا ہے جس کی ایجاد کو دستاویزی شکل دی گئی تھی"، لیکن یہ دعویٰ بھی زیادہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اس طرح کی مشینیں پہلے سے موجود تھیں۔
اب جبکہ میکینکل مشین سے ڈجیٹل مشین پر ہم پوری طرح گامزن ہیں اور ابھی ہم نے اور آنے والی نسلوں نے بہت سی انقلابی تبدیلیوں کو دیکھنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیتے دنوں کی بات ہے جب ٹائپ رائٹر کے بغیر کسی دفتر کا تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا اور ٹائپنگ سیکھنے کے لئے کس جد و جہد سے گزرنا پڑتا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔