بدھوڑی کی بدزبانی، حکومت کی خاموشی اور دانش علی کا کرب
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ حالانکہ اظہار افسوس بھی لولا لنگڑا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں!
بی جے پی کے ایم پی رمیش بدھوڑی نے پارلیمنٹ کے اندر بی ایس پی کے ایم پی کنور دانش علی کی شان میں جو گستاخی کی ہے اگر انھوں نے ایوان کے باہر ایسی حرکت کی ہوتی تو اب تک ان کے خلاف پولیس کیس ہو چکا ہوتا۔ لیکن چونکہ ایوان میں دیے گئے بیان کے خلاف ایوان کے باہر قانونی چارہ جوئی نہیں ہو سکتی اس لیے وہ اب بھی آزاد ہیں۔البتہ پارٹی نے انھیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے پندرہ دن کے اند رجواب مانگا ہے۔ یقیناً یہ کوئی کارروائی نہیں ہے۔ اس سے تو ان کے حوصلے او ربلند ہو گئے ہوں گے۔ اب اگر آگے چل کر وہ پھر کسی کی شان میں ایسی گستاخی کریں تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ دانش علی نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا سے اس کی تحریری شکایت کی ہے اور اوم برلا نے بدھوڑی کو یہ وارننگ دے کر چھوڑ دیا ہے کہ اگر دوبارہ ایسی حرکت کی تو سخت کارروائی ہوگی۔
اوم برلا لوک سبھا کے اسپیکر ہیں۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ کسی پارٹی کے ایم پی نہیں ہیں۔ ایک اسپیکر کو تمام ارکان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ اسے کسی کے خلاف تعصب سے کام نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی کسی کے ساتھ بیجا رو رعایت کرنی چاہیے۔ اب تک بیشتر اسپیکروں کا کم و بیش یہی کردار رہا ہے۔ لیکن موجودہ اسپیکر کا رویہ بظاہر غیر جانبدارانہ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس سے قبل انھوں نے ایوان کے اندر نعرہ بازی کرنے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کے ارکان سنجے سنگھ اور راگھو چڈھا کو ایوان سے معطل کر دیا ہے۔ حالانکہ ایوان کے اند رہمیشہ نعرہ بازی ہوتی رہی ہے۔ ممبران ایوان کے وسط میں پہنچتے رہے ہیں اور یہاں تک کہ اسپیکر کے اوپر کاغذ پھاڑ کر پھینکتے بھی رہے ہیں۔ ایسے مواقع پر ان کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا جاتا رہا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ جس زبان کا استعمال رمیش بدھوڑی نے دانش علی کے لیے کیا ہے اگر اس زبان کا استعمال کسی دوسری پارٹی کے رکن نے کسی بی جے پی ایم پی کے خلاف کیا ہوتا تو فوری طور پر اس کو نہ صرف معطل کر دیا گیا ہوتا بلکہ اور بھی کارروائی کی گئی ہوتی۔ لیکن اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود حکومت اور حکمراں جماعت نے خاموشی کی ایسی چاد راوڑھ رکھی ہے کہ جیسے کسی نے کچھ کہا نہیں اور کسی نے کچھ سنا نہیں۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ جس وقت بدھوڑی بدزبانی کر رہے تھے ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے دو سابق کابینہ وزیر روی شنکر پرساد اور ڈاکٹر ہرش وردھن مزے لے رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ان دونوں کو نہ تو بدھوڑی کی گستاخی قابل اعتراض لگی اور نہ ہی اپنا رویہ شرمناک لگا۔
البتہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ حالانکہ اظہار افسوس بھی لولالنگڑا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کو معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ معذرت تو بدھوڑی کو کرنی چاہیے تھی۔ دوسری بات یہ کہ چلو راج ناتھ سنگھ نے معذرت کی لیکن اس میں اگر اور مگر کی کہاں گنجائش ہے۔ ٹھیس نہ صرف دانش علی کے جذبات کو پہنچی ہے بلکہ پورے ایوان کو پہنچی ہے، پورے ملک کو پہنچی ہے اور ملک کے تمام مسلمانوں کو پہنچی ہے۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے بدھوڑی کے بیان پر کچھ اظہار خیال کرنے کے بجائے اپنی صفائی پیش کی ہے اور یہ بتانے اور جتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ پرانی دہلی کے باشندہ ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ان کا بچپن اور جوانی گزری ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو دی جانے والی گالیاں برداشت کر لیں گے۔ ایسی صورت میں جبکہ بہت سے مسلمان ان کے دوست ہیں انھیں تو بدھوڑی کے بیان کی مذمت کرنی چاہیے۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ اگر وہ مذمت نہیں کریں گے تو اپنے مسلم دوستوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ انھوں نے یہ غلط بیانی بھی کی ہے کہ شور شرابے میں وہ کچھ سن نہیں سکے۔ جبکہ وہ بالکل ان کے پیچھے تھے اور ہنس رہے تھے۔
بہت سے مبصرین اور آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بدھوڑی نے جو کچھ کہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ تو اس قسم کی زبان پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہاں نئی بات یہ ہوئی کہ انھوں نے اس زبان کا استعمال ایوان کے اندر کیا اور وہ بھی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ہونے والے پہلے اجلاس کے دوران کیا۔ مبصرین کے مطابق اس میں کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی بی جے پی کا کلچر ہے، یہی اس کی تہذیب ہے۔
وہ اس سلسلے میں ماضی کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بی جے پی کا کوئی لیڈر اگر کسی کو اور خاص طور پر مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو گالیاں دیتا ہے تو اس کو اس کا انعام ملتا ہے۔ اس کی ترقی ہوتی ہے۔ انوراگ ٹھاکر کی مثال سامنے کی ہے۔ انھوں نے جب دہلی انتخابات کے موقع پر گولی مارنے کا نعرہ لگایا تھا تو اس وقت وہ وزیر مملکت تھے۔ لیکن گالیوں والا نعرہ لگوانے کے بعد انھیں کابینہ وزیر بنا دیا گیا۔ گری راج سنگھ بھی مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو گالیاس دیتے دیتے پہلے جونیئر وزیر ہوئے اور پھر کابینہ وزیر ہو گئے۔ پرگیہ ٹھاکر نے مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو مغلظات سنائیں تو انھیں ایم پی بنا دیا گیا۔ ہیمنت بسوا سرما مسلمانوں کو گالیاں دیتے دیتے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ بی جے پی میں ترقی کا آسان فارمولہ یہ ہے کہ مخالفوں کو گالیاں دو اور انعام پاؤ۔ کوئی تعجب نہیں کہ رمیش بدھوڑی کو اب ان کے کارنامے کی وجہ سے دہلی بی جے پی کا صدر بنا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حیرت نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے چہیتے ہیں۔ وہ مودی کے استقبال کے لیے بھیڑجٹاتے اور ان کی شان میں نعرے لگانے والوں کا مجمع اکٹھا کرتے ہیں۔ اب بھلا ایسے کام کے لیڈر کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی؟ اب تک حکومت اور پارٹی کا جو رویہ ہے اس کے پیش نظر بدھوڑی کی ترقی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہاں اگر مسلم ملکوں کی جانب سے اس پر احتجاج ہو تو ممکن ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو جائے۔
دراصل گزشتہ تقریباً دس برسوں کے درمیان سیاست کے معیار کو انتہائی پست کر دیا گیا ہے۔ پہلے سیاست میں کچھ مریادائیں ہوتی تھیں، کچھ آدرش ہوتے تھے، کچھ وقار ہوتا تھا، کچھ سنجیدگی ہوتی تھی اور کچھ اصول ہوتے تھے۔ لیکن اب سیاست میں ان چیزوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ اب بد زبانی کا نام شائستگی پڑ گیا ہے۔ بیہودگی کا نام تہذیب رکھ دیا گیا ہے۔ گالی گلوج کو قصیدہ خوانی کہا جانے لگا ہے۔ اصول شکنی کو اصول پرستی بتایا جا رہا ہے۔ اب قدروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔ اصولوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اب سیاسی مخالفین کو بدترین دشمن اور اختلاف رائے کرنے والوں کو ملک کا غدار بتایا جاتا ہے۔
اب تک ہم دیکھتے تھے کہ عوامی جلسوں، ریلیوں اور پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ دی جاتی تھی۔ ان کو دہشت گرد اور انتہاپسند کہا جاتا تھا۔ ان کی نسل کشی کی کال دی جاتی تھی۔ ان کو دیکھ لینے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ ان کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی تھی۔ لیکن اب پارلیمنٹ کے اندر دیکھ لینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ایک مسلم ایم پی کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ کوئی شریف آدمی جن الفاظ کا استعمال گلی محلے میں نہیں کر سکتا ان کا استعمال اب ایوان کے اند رہونے لگا ہے۔
گوکہ اسپیکر نے رمیش بدھوڑی کے قابل اعتراض الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے نکال دیا ہے لیکن وہ الفاظ پوری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی صدائے بازگشت گونج رہی ہے۔ عالمی میڈیا ان الفاظ کا ذکر کرکے ہندوستان کے معزز رکن پارلیمنٹ کے کارناموں کو پوری دنیا میں عام کر رہا ہے۔ کیا اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ حکومت اور بی جے پی کے لوگوں کو ایسا لگتا ہو کہ اس واقعے سے ہندوستان کی نیک نامی ہو رہی ہے۔ لیکن دنیا اور انصاف پسند طبقہ اس طرح نہیں سوچتا جیسے کہ وہ لوگ سوتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔