مدھیہ پردیش میں بھی گجرات جیسی ریوڑیاں!
خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعظم اور پارٹی نے کرناٹک جیسی دوسری ریاستوں کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی 'ریوڑی کلچر' کو اپنا لیا ہے
مدھیہ پردیش کے لیے رواں سال کے آغاز میں بی جے پی کے دو ریاست گیر سروے اطمینان بخش نہیں تھے۔ ان کا اشارہ صاف تھا کہ ریاست میں حکومت مخالف لہر بہت مضبوط ہے۔ سروے میں یہ بھی اشارہ دیا گیا کہ اگر شیوراج سنگھ چوہان وزیر اعلیٰ رہتے ہیں تو پارٹی سال کے آخر میں متوقع اسمبلی انتخابات میں 80 سیٹیں جیت لے گی لیکن اگر انہیں ہٹایا جاتا ہے تو 230 رکنی ایوان میں پارٹی کی تعداد 60 تک گرنے کا امکان ہے۔
قیادت مرکزی کابینہ میں وزیر اعلیٰ کو شامل کرنے پر غور کر رہی تھی لیکن دو سروے کے نتائج اور ایسی صورت حال میں قربانی کا بکرا کون بنتا، لہذا اس خیال کو شروع میں ہی سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ کوئی بھی ڈوبتے جہاز کا کپتان بننے کو تیار نہیں تھا، حالانکہ پارٹی میں لیڈروں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ نریندر سنگھ تومر، کیلاش وجے ورگیہ، نروتم مشرا، جیوترادتیہ سندھیا، وی ڈی شرما، پرہلاد پٹیل، گوپال بھارگوا جیسے بزرگ موجود تھے۔ ریاستی بی جے پی صدر وی ڈی شرما کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی اسی بنیاد پر ترک کر دیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کار دنیش گپتا کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں چوہان کو وزیر اعلی کے طور پر ایک اور میعاد دینے کے حق میں نہیں ہیں، چاہے پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پارٹی نے بہتر سمجھا کہ چوہان کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے تاکہ نئے چہرے پر داؤ لگانے کا خطرہ نہ ہو۔
یہ اگست کا آخری ہفتہ تھا، جب ایک صحافی نے براہ راست مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سے پوچھا، "سسر کے نام پر بہو لانے کی بات کر رہے ہیں۔ شیوراج نہیں تو بتاؤ دولہا کون بنے گا؟ اس سے پہلے کہ ڈبل انجن والی حکومت کے 'ترقیاتی ریکارڈ' پر سوالات اٹھیں، تومر سوال کو ٹال کر آگے بڑھ گئے۔ اس سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر 'وزیر اعلیٰ کے چہرے' کے سوال کو ٹال دیا تھا کہ ’’شیوراج جی وزیر اعلیٰ ہیں۔ وزیر اعلی کا فیصلہ کرنا ہماری پارٹی کا کام ہے اور ہم فیصلہ کریں گے۔‘‘ پارٹی کی طرف سے انہیں اگلے وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کرنے سے انکار کے باوجود چوہان کو لگاتار عوامی میٹنگوں میں بہادری سے یہ وعدہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ جب وہ واپس آئیں گے، تو وہ لوگوں کے لیے مزید کام کریں گے، ’’بہنوں کے آشیرواد سے تمہارا بھائی پھر واپس آئے گا۔ کانگریس تو تمام اسکیموں کو بند کر دے گی۔‘‘
نقصان کو کم کرنے کے لیے سخت قدم اٹھانے اور دو مرکزی وزراء اشونی ویشنو اور بھوپیندر سنگھ کو ریاست میں مہم کا انچارج بنانے کے باوجود بی جے پی سے رہنماؤں کا اخراج جاری ہے۔ کانگریس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پچھلے چار مہینوں میں اب تک 35 بی جے پی لیڈر کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں، جن میں ایک سابق ایم پی، آٹھ سابق ایم ایل اے، ایک موجودہ ایم ایل اے اور کئی تنظیمی لیڈر شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گوالیار-چمبل، بندیل کھنڈ اور مالوا-نماڈ علاقوں سے آتے ہیں۔ بھوپال میں مقیم ایک معروف سیاسی مبصر رشید قدوائی کہتے ہیں، ’’ان میں سے زیادہ تر 'ادھر-ادھر' کرنے والے لیڈر ہیں اور یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہی ہے کہ ہوا کس طرف چل رہی ہے!‘‘ راشد بتاتے ہیں کہ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں بھی انتخابات سے پہلے بی جے پی سے لوگوں کا اسی طرح کا اخراج ہوا تھا۔
یہ تعداد زیادہ ہوتی اگر کانگریس ان 26 کانگریس ایم ایل ایز کو واپس لینے سے انکار نہ کر دیتی جو جیوترادتیہ سندھیا کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور ریاست میں کانگریس حکومت کو گرا دیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر دگوجے سنگھ نے ایک نامہ نگار سے کہا، ’’انہیں میری آخری سانس تک پارٹی میں واپس نہیں لیا جائے گا۔‘‘ غیر مصدقہ اور غیر سرکاری اطلاع یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے چہروں نے، جن میں دو وزراء اور دو ایم ایل اے شامل ہیں، 'گھر واپسی' کے لیے کانگریس سے رابطہ کیا تھا۔
خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعظم اور پارٹی نے کرناٹک جیسی دوسری ریاستوں کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی 'ریوڑی کلچر' کو اپنایا ہے لیکن وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح کرناٹک میں کانگریس کے وعدوں نے بی جے پی کے ہاتھ سے اقتدار چھین لیا اور مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان حکومت فلاحی اسکیموں کو فروغ دینے اور لاڈلی بہنا اسکیم کے تحت براہ راست نقد رقم کی منتقلی میں مصروف ہے۔
ریاست بھر میں لگائے گئے بڑے بڑے ہورڈنگز خواتین کو یاد دلاتے ہیں کہ 'نقدی' (1000 روپے) کی اگلی قسط ہر مہینے کی 10 تاریخ کو ان کے کھاتوں میں آتی ہے۔ ہورڈنگز پر براہ راست خواتین کو اس طرح مخاطب کیا گیا ہے، ’’لاڈلی بہنو، 10 تاریخ آنے والی ہے‘‘ اور وزیر اعلیٰ کے اس وعدے کو بھی دہراتے ہیں کہ انتخابات کے بعد ماہانہ 1000 روپے کی رقم بڑھ کر 3,000 روپے ہو جائے گی!
اسکیموں کو فروغ دینے والے اس طرح کے اور بھی بہت سے ہورڈنگز ہیں۔ ان میں سے ایک میں 'سیکھو کماؤ یوجنا' (ایس کے وائی) کے نوجوان استفادہ کنندگان کی تصویریں ہیں جس کے تحت کالج کے فارغ التحصیل افراد کو نجی فرموں میں تربیت یا انٹرن شپ کے لیے ہر ماہ 8000 سے 10000 روپے نقد فراہم کئے جاتے ہیں۔ ریاستی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کم از کم آٹھ لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے اب تک 60000 کا اندراج ہو چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ چوہان، جو ہر روز تقریباً تین نئے وعدے کرتے ہیں، نے راجستھان اور کرناٹک میں کانگریس حکومتوں کی طرز پر 450 روپے میں ایل پی جی سلنڈر اور سبسڈی والی بجلی کی بھی پیشکش کی ہے۔
ان منصوبوں سے فطری طور پر ریاست میں بی جے پی کارکنوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور جو بی جے پی کے کارکن جنوری میں زیادہ پر اعتماد نہیں تھے ستمبر میں اسے ایک قریبی مقابلہ بنانے کے لیے بہت زیادہ پر امید نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار دنیش گپتا کا ماننا ہے کہ سیاسی ہوا خواہ اب بھی کانگریس کے حق میں ہے لیکن زمین پر بی جے پی کے کارکن پہلے سے زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں۔
لاڈلی بہنا یوجنا ریاست کے 2.60 کروڑ خواتین ووٹرز میں سے تقریباً 1.31 کروڑ خواتین ووٹرز کا احاطہ کرتی ہے، جوکہ کل 5.39 کروڑ ووٹروں کا 48 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس اسکیم پر ہر سال 18000 سے 20000 کروڑ روپے خرچ ہوں گے لیکن ابھی تک صرف 10800 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے اگلی حکومت کو باقی فنڈز کا بندوبست کرنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔
کیش ٹرانسفر اسکیم یقینی طور پر بی جے پی اور حکومت کے لیے اسٹاک بوسٹر رہی ہے۔ چار بچوں کی ماں اور ایک محنتی شخص کی بیوی راج بتی اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ اس حکومت کو ووٹ دیں گی جو اسے پیسہ بھیج رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جو حکومت گھر دے رہی ہے، راشن دے رہی ہے، ایل پی جی کے لیے پیسے دے رہی ہے، ووٹ بھی اسی کو دیں گے!‘‘
مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر، جو بھوپال کے اپنے حالیہ دورے کے دوران مطمئن نظر آئے، نے بھی اعتراف کیا، ’’کوششوں کے مطلوبہ نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ بی جے پی کے تازہ سروے میں پارٹی کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔
تاہم اگر ہم زمین پر نظر ڈالیں تو یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر کوئی خیرات سے مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک ہی علاقے میں بھی اسکیم پر ردعمل ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں مختلف ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر خاندان میں مختلف چیلنج اور مختلف مسائل ہوتے ہیں۔ ایک کے بے روزگار نوجوان بیٹے ہیں جنہیں سرکاری نوکری نہیں ملی۔ جبکہ دیگر خاندان زرعی قرض کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ وہیں تیسرے خاندان کا خیال ہے کہ ماہانہ 1000 روپے، جس میں اکتوبر میں 250 روپے کے اضافے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ان کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی 'ہر روز ایک وعدہ' کی حکمت عملی بھی ساکھ کا بحران پیدا کر رہی ہے۔ اب اس ہفتے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ تمام کنٹریکٹ پر چلنے والے اسکولوں کے گیسٹ پروفیسرز جنہیں روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ دی جاتی تھی انہیں اب 50000 روپے ماہانہ ملیں گے۔ اسی طرح ان 'گیسٹ ٹیچرز' کو جنہیں 5000 سے 9000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ، سی ایم کا کہنا ہے کہ اب انہیں 10000 سے 18000 روپے ملیں گے۔ لیکن ظاہر ہے انتخابات کے بعد!
اب اس رفتار سے آنے والی فلاحی اسکیموں اور وعدوں کو بھی مایوسی میں جنم لینے والی انتخابی چالوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ تاثر اور بحث عام ہیں کہ ’’اگر بی جے پی اقتدار میں واپس آتی ہے تو وہ غالباً ان اسکیموں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور اگر وہ ان میں سے ایک چوتھائی کو بھی مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو غنیمت ہوگی۔‘‘
بی جے پی کے وعدوں اور اسکیموں کو بھی ریاست میں کانگریس کے متوازی وعدوں سے کچھ حد تک بے اثر کر دیا گیا ہے، جس میں خواتین کو ماہانہ 2000 روپے دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ پارٹی ووٹروں کو یاد دلا رہی ہے کہ اس کی حکومت والی تمام ریاستوں میں وعدے پورے کیے گئے ہیں۔
نچلی سطح پر اس طرح کے ملے جلے رد عمل سے آگاہ وزیر اعلیٰ چوہان اکثر اپنی تقریروں میں یہ تنبیہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ کانگریس کی غریب نواز پالیسیوں پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اس نے 2018 میں ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد مبینہ طور پر پالیسیوں میں تبدیلی کی تھی اور کئی اسکیموں کو بند کر دیا تھا!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔