الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کرے گا!

مرکزی حکومت میں رہنے کے باوجود بی جے پی نے سماج کے اہم طبقات میں دوریاں اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے

<div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div>

ویڈیو گریب

user

نواب علی اختر

ہندوستان کی جمہوریت عوام کے اطراف گردش کرتی ہے۔ عوام ہی جمہوریت میں سب کچھ ہوتے ہیں۔ رائے دہندگان ہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون اقتدار کے قابل ہے اور کسے اپوزیشن میں بیٹھ کر سیاست کے رموز کی مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں اگر عوام کو ہی ووٹ ڈالنے سے روکا جائے گا تو پھر جمہوری عمل کا مذاق بن جائے گا ۔یہ سلسلہ آج سے کچھ 14 سال پہلے شروع کیا گیا جو دھیرے دھیرے پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے یہاں تک کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں یہ کچھ زیادہ ہی پھل پھول رہا ہے۔

اترپردیش میں 20 نومبر کو 9 اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخاب کے لئے انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہتھکنڈے اور حربے اختیار کرنے تھے حکمراں فریق نے جم کر کئے اور عوام کی تائید جبراً حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی ۔ اس دوران خوب انتخابی ضابطہ اخلاق اور قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ کئے بغیر کام کیا گیا اور قانون ساز ادارے میں رسائی کے لیے بھی قانون کو توڑا گیا تھا۔ پولنگ کے دوران بھی ایسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جن کے نتیجہ میں انتخابی عمل کا مذاق بن کر رہ گیا ۔اقتدار کی حوس کے سامنے جمہوریت کو سرعام برہنہ کیا گیا مگر آئینی ادارے خاموش رہے۔

شفاف انتخابی عمل ہی جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے جس کے تحت انتخابی ضابطہ کے مطابق جو قوانین ہیں ان کے مطابق رائے دہی کا عمل پورا کیا جانا چاہئے۔ عوام کو اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لیے ہر طرح سے محفوظ اور آزادانہ ماحول فراہم کیا جانا چاہئے۔ ان پر کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ ہی انہیں کسی طرح کا لالچ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر اترپردیش کی بات کی جائے تو وہاں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری عمل کوہی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال فطری ہے کہ کیا حکمرانوں کو ووٹروں کی رائے سے ڈر لگتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو انہیں اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہئے۔

ایک طرف رائے دہی کا تناسب بڑھانے کے لیے ملک بھر میں کئی کوششیں کی جاتی ہیں، اثر دار شخصیات سے اپیل کروائی جاتی ہے اور عوام میں شعور بیدار کرنے اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرنے آگے آئیں اور وہ کسی طرح کا ڈر و خوف محسوس نہ کریں۔ تاہم اترپردیش میں انتظامیہ اور پولیس کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ، کوئی وجہ بتائے بغیر پولنگ بوتھوں کے اطراف لاٹھی چارج کیا گیا اور پولیس نے کئی مقامات پر رائے دہندگان کو قطار سے ہٹا کر باہر کر دیا۔


خاص طور پر مسلم آبادی والے علاقوں میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کی متعدد شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ تب ہوا ہے جب ریاست میں محض 9 اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوئے اور اس کا حکومت کے استحکام پر بھی کوئی اثر بھی پڑنے والا نہیں تھا اس کے باوجود رائے دہندگان کو قطار سے نکال باہر کرنا اور انہیں ووٹ ڈالنے سے روکنا در اصل اترپردیش حکومت کے خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ حالانکہ ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے کسی حد تک اپنی عزت بچا لی ہے مگر بڑا سوال یہ ہے کہ عوام میں پارٹی کی جو شبیہ ابھری ہے اور انتظامیہ کے کردار پر جو داغ لگا ہے، اس کی طہارت کیسے کی جائے گی؟

جہاں تک پولیس کا سوال ہے تو ووٹرس کو روکنا یا پھر برقعہ پوش خواتین کے نقاب الٹ کر دیکھنا پولیس کا اختیار نہیں ہے۔ یہ کام الیکشن کمیشن کے حکام کر سکتے ہیں۔ پولیس نے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے، جو ملک کے جمہوری عمل کی افادیت کو متاثر کرنے والا ہے۔ رائے دہندگان کو قطار سے نکال باہر کرتے ہوئے پولیس حکام اور عہدیداروں نے ایک طرح سے جمہوری عمل کی اہمیت اور افادیت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور جو شکایات اور ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ان کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا کرنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات نے یہ تو واضح کر دیا کہ عوام نفرت کے مقابلے ترقی، خوشحالی، محبت، رواداری اور بھائی چارے پر یقین رکھتے ہیں، اس ثبوت جھارکھنڈ نے پیش کیا جہاں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ ہر موقع پر بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دی گئی اور سماج کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر عوام نے ایسے لوگوں کو یکسر مسترد کر دیا اور محبت، ترقی اور بنیادی مسائل کو اہمیت دینے والوں کو اقتدار سونپ دیا۔

بی جے پی قائدین کی جانب سے لگاتار اقلیتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جھارکھنڈ میں کہا گیا کہ ہیمنت سورین کی حکومت مسلمانوں کو تحفظات دینا چاہتی ہے اور کانگریس او بی سی طبقات کے تحفظات چھین لینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس طرح مرکزی حکومت میں رہنے کے باوجود بی جے پی نے سماج کے اہم طبقات میں دوریاں اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسا انتہائی اشتعال انگیز نعرہ دیا گیا۔ بی جے پی کے اس نعرہ سے بی جے پی کی حلیف جماعتیں اور اس کے اپنے ہی کچھ قائدین متفق نہیں تھے اور اس کا انہوں نے کھل کرا ظہار بھی کیا تھا۔


اس طرح کے نعروں کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت بھی درج کروائی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر کسی طرح کی کارروائی کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ وہیں دوسری طرف کانگریس زیر قیادت ’انڈیا اتحاد‘ کی جانب سے لگاتار عوامی مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ یہ واضح کیا گیا کہ سماج میں مختلف ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی کا پتہ چلا کر ترقی کے ثمرات میں انہیں حصہ داری دی جائے گی۔ بی جے پی اس مسئلہ سے چراغ پا ہے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے اس نے پسماندہ طبقات کو ورغلانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی تھی۔

اقلیتوں سے دوسرے طبقات کو خوفزدہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ بی جے پی نے کام کیا ہے۔ پارٹی کے ذمہ دار قائدین نے بھی اسی روش کو اختیار کیا اور عوامی مسائل پر کسی طرح کا اظہار خیال کرنے سے گریز ہی کیا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بھی اپنے دستوری عہدوں کا خیال کئے بغیر اختلافات کو ہوا دینے پر ہی توجہ مرکوز کی ۔ دوسرے قائدین کی جانب سے تو اس سے زیادہ اشتعال انگیزی کی گئی۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ انہوں نے ہی’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا نعرہ دیا تھا۔

انتخابات کے موسم میں متعلقہ ریاستوں میں ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کا وطیرہ رہا ہے۔ عوامی مسائل اور اپنی حکومت کی کارکردگی یا مستقبل کے منصوبوں اور پروگراموں کو پیش کرنا بی جے پی کا طریقہ کار رہا ہی نہیں ہے اور ہمیشہ منفی ذہنیت کے ساتھ ہی کام کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کون منفی ذہنیت کے ساتھ کام کرتا ہے اور اختلافات کو ہوا دیتا ہے ،کون ان کے مسائل کو سمجھتا ہے اور انہیں حل کرنے کی سمت منصوبہ پیش کرتا ہے۔