برتھ ڈے اسپیشل: مذہب اور طبقہ سے اوپر اٹھ کر 'انسانیت' سے ملاقات کا نام ہے شیوانی!
آزادی کے بعد پیدا بے شمار ہیرو، ویلن، اچھے و بدعنوان سیاسی لیڈر، طوائف و دلال، بیرون ممالک جانے کے خواہشمند نوجوان اور پیچھے چھوٹے سرپرستوں کی خاموش یا بے باک تصاویر شیوانی جی کی تخلیقات میں موجود ہیں
آج شیوانی جی کا یوم پیدائش ہے۔ اپنی تخلیقات میں عوامی ثقافت کی جھلک دکھلانے اور کرداروں کی بے مثال تصویر کشی کرنے کے لیے مشہور شیوانی جی نے محض 12 سال کی عمر میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ تب شائع ان کی پہلی کہانی سے لے کر 21 مارچ 2003 کو ان کے انتقال تک ان کی تحریر کا سلسلہ لگاتار جاری رہا۔ ان کی بیشتر کہانیاں اور ناول نسائیت پر مبنی رہے۔ ان کی پیدائش پر پیش ہے سینئر صحافی اور ادیب و شیوانی جی کی بیٹی مرنال پانڈے کے ذریعہ تحریر اس 'پیش لفظ' کا حصہ جو انھوں نے ایک کتاب کے لیے لکھا تھا۔
17 اکتوبر سنہ 1923، وجے دشمی کے دن راجکوٹ واقع پرنسز کالج کے پرنسپل اشونی کمار پانڈے کے گھر ان کی بیوی لیلاوتی کی کوکھ سے ان کی تیسری بیٹی اور چوتھی اولاد نے جنم لیا۔ مکر راشی، متھن لگن، نام رکھا گیا گورا۔ دادا نے کہا کہ دُرگا آئی ہیں۔ والد نے کہا یہ ہماری سرسوتی ہوگی۔ ماں ایک اور بیٹی ہونے سے کچھ مایوس تھیں، لیکن ان کو بھروسہ دلاتے ہوئے پنڈت نے کہا کہ مکر راشی کی اس لڑکی کی جنم کنڈلی میں گرہوں (سیاروں) کی حالت حیرت انگیز اور درجہ اول کی ہے۔ نام 'گورا' رکھا گیا اور بچی گورا باقی فیملی کے ساتھ الموڑا و راجکوٹ، الموڑا و رام پور، الموڑا و بنگلور کی ملی جلی تہذیب اور لسانی ماحول کے درمیان کئی زبانیں سنتی، گھڑسواری اور موسیقی کے ساتھ تعلیم حاصل کرتی بڑی ہوئی۔
8 سال کی عمر میں بڑی بہن جینتی اور بھائی تروبھون کے ساتھ گورا کو رویندر ناتھ ٹیگور کی نوتعمری تعلیمی ادارہ 'شانتی نکیتن' کے لیے روانہ کیا گیا۔ ٹیگور فیملی کے ساتھ کچھ ماہ گزارنے کے بعد ہنس مکھ بچے جلد ہی مادری زبان کماؤنی، اور ہندی و گجرات کے ساتھ فراٹے دار بنگالی بولنا سیکھ کر نئے ماحول میں گھل مل گئے۔ گورا نے پہلی تصنیف بنگالی میں کی، تو گرودیو نے کہا- پڑھو سب زبانیں، لیکن لکھو اپنی ہی مادری زبان میں، وہی بہتر اور سہل ہوگا۔ گورا نے ان کی بات گانٹھ باندھ لی۔
جب لکھنا شروع کیا تو جو نیا نام اختیار کیا وہ اصل نام کا ہی معنی رکھتا تھا، یعنی شیوانی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک عورت کے لیے اپنے نام سے چھپنے کے لیے لکھنا طرح طرح کے تبصروں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ نیا نام اگر کچھ نہیں تو ایک تنکے کا سہارا تو تھا ہی۔ 12 سال کی عمر سے شروع ہوئی 'شیوانی' کا یہ تخلیقی سفر بے شمار اچھے اور برے تجربات کے ساتھ ساتھ تنقیدوں کے درمیان ان کی موت تک، یعنی پورے 67 سالوں تک جاری رہا۔
شیوانی کی کہانیاں بیسویں صدی کے ہندوستانی راج سماج کی، اور اس کے دوران ملک میں آئی تبدیلیوں کے درمیان عوام، خصوصاً خواتین کی حالت کی ایک ایسی بے ہنگم تصویر ہے جس کے آخری سرے کو ہم بیسویں صدی کے آخری تہوار کی طرح پڑھ سکتے ہیں۔ اس داستانِ عظیم میں ملک کے نو آبادیاتی دور کے جاگیردارانہ کردار اور مشترکہ خاندانوں کی دل کو چھو جانے والی تصویریں بھی ہیں، اور اس وقت کے شاندار و ناپسندیدہ سماج مصلحین اور شانتی نکیتن احاطہ سے جڑی تفصیلات بھی، صدیوں پرانی روایتوں کو جی رہے کماؤں کا روایتی سہل دیہی سماج ہے، تو لکھنؤ، کولکاتا اور دہلی جیسے شہروں کے کئی سطحوں میں تقسیم، جمہوری سیاست کی پیچیدگیوں اور خاندانی تقسیم کے بالکل نئے تجربات کے درمیان جی رہا جدید شہری سماج میں۔
آزادی کے بعد کے 60 برسوں میں ملک میں پیدا تمام قسم کے ہیرو، ویلن، اچھے اور بدعنوان سیاسی لیڈر، مسخرے، جرائم پیشے، طوائفیں، دلال اور بیرون ممالک جانے کے خواہش مند نوجوان و ان کے پیچھے چھوٹے سرپرستوں کی خاموش یا بے باک داستان، سب ان تخلیقات میں موجود ہیں۔
شیوانی کا افسانوی فلک بنیادی طور پر ایک گہری خوبصورتی اور ایک واضح روایتی اخلاقیات کو لے کر چلتا ہے۔ آپ ان سے غیر متفق بھلے ہوں، ان کے نظریہ کی بنیادی ایمانداری یا افسانوی پلاٹ میں بڑی سہل پسندی سے گونتھی گئی روایت کی تشریح کو جھٹلا نہیں سکتے۔ جبھی ان کا ادب آج تک ہندوستان کے سبھی طبقات کے قارئین کے ساتھ ایک ایسی گزری ہوئی یاد، ترنگ اور خوش دل شراکت داری تیار کرتا ہے جو کسی بھی تخلیق کار یا مصنف کے لیے قابل قدر ہے۔
بنیادی طور پر ایک بڑا مصنف ناقدین، ریاستی اعزاز یا انعام کو ہدف بنا کر کبھی نہیں لکھتا، اپنی داخلی رجحانات کے دباؤ سے، اپنے ضمیر کو حاضر ناظر جان کر لکھتا ہے۔ اس لیے ہر دور میں اقتدار سے یا سماج سے یا دونوں سے اس کا ٹکراؤ ہوا ہے۔ لیکن اگر ایماندار تحریر سے کسی کی براہ راست حمایت یا مخالفت ہوتی نظر بھی آتی ہو،تو اس کے لیے مصنف کو تنقید یا تعریف کا نشانہ بنانا ادب کی داخلی رجحان کو نظرانداز کرنا ہے۔
آخر پریم چند نے مارکس کو خوش کرنے، نرالا نے اپنی جینتی منوانے یا نرمل ورما نے غیر رہائشی ہندوستانیوں کا چودھری بننے کے لیے تو نہیں لکھا تھا۔ لوگ بھلے ہی ان کو خاص نظریہ کی علامت ماننے بیٹھ گئے ہوں، سچ تو یہی ہے کہ اس قسم کی محدود جانبداری سیاست کا حصہ ہوتی ہے، ادب کا نہیں۔ ایک ادیب اگر کوئی حلف نامہ اٹھاتا ہے تو صرف انسانیت کے نام۔ شیوانی نے بھی یہی کیا۔
شیوانی کی زندگی اور ادب ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں نسائی آزادی کی ایک کتنی خاموش لڑائی گزشتہ صدی میں شروع ہو گئی تھی۔ اور جن خواتین نے اگلی نسل کے لیے دانشور طبقہ میں راہ ہموار کی، انھوں نے اس لڑائی میں نجی سطح پر کتنا کچھ خاموشی کے ساتھ برداشت کیا۔ لیکن ان خواتین کی اس عموماً خاندانی اسباب سے خاموش، تقریباً غیر تحریری داستان کی چشم دید رہی ہر مصنفہ جانتی ہے کہ یہ لڑائی مردوں یا فیملی سسٹم کے خلاف نہیں جیسا کہ تشہیر کیا گیا۔ بلکہ اس خود فریبی اور جھوٹی روایت کے خلاف تھی جس کے پیچھے تب سے آج تک مرد کے ذریعہ تشکیل و پھیلائے گئے مذہب، سرکاری اقتدار اور معیشت کی بربریت پر مبنی طاقتیں کھڑی ہیں۔
ان طاقتوں کی اجتماعی کوششوں نے صدیوں سے خاتون ہی نہیں، سماج کے ہر کمزور طبقہ کے لیے غلامی کی قید گھر سے سڑک تک تیار کی ہے۔ خواتین یا کمزور طبقات کی خودمختاری کے نام پر کی جانے والی کھوکھلی سیاسی تلوار بھنجائی یا بازار کی اشتہاری نعرے بازی نے ان جیلوں کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ ان کے خلاف مہادیوی ورما، سبھدرا کماری چوہان اور شیوانی و ان کی ہمعصر نسل کی مصنفوں کا ادب ہی صحیح محاذ تیار کرتا ہے۔ خاتون یا کمزور طبقہ کی طاقت کی یہ بے عزتی پر مبنی تشخیص چونکہ تعلیم کے، فکر کے شعبہ سے ان کی طویل بے دخلی نے کی ہے، اسی شعبہ میں سرگرم ہو چکی خواتین کے ذریعہ اس کی صحیح شناخت کی گئی اور صحیح طریقے سے اس کی انتقامی کارروائی ممکن ہوئی ہے۔
بالآخر ہر بڑا مصنف روایت کی اہمیت کا اعتراف کرتا ہے، اس روایت کا جس میں نہ صرف بنیادی اقدار کا اعتراف ہے بلکہ ان اقدار کے زوال کی قبولیت بھی ہے جو باسی پڑ کر ہٹانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس معنی میں شیوانی جیسی تحریر نہ صرف ماضی کی از سر نو یاد، بلکہ حال کے گھٹیا حصوں کے خلاف کھڑا ایک قلع بھی بن جاتا ہے۔ وہ اوپری زندگی کے اندر چھپی ایک دوسری زندگی ہے، جس کے بغیر ہندوستانی زندگی کی کوئی بھی تفصیل نامکمل اور بے معنی ہے۔
طبقہ اور مذہب سے پرے ہٹ کر کرداروں کی انسانیت سے روبرو ہونا، شیوانی کی تحریروں کی خوبی ہے۔ ان کی تخلیقات کے غیر مذہبی کردار بھی: عیسائی، مسلمان، پارسی اور سماج کے کنارہ کش و نام نہاد راستے سے بھٹکے لوگ: طوائف، ڈکیت، قاتل، ہجڑے، کوڑھی اور بھکاری، سب ان کی پوری ہمدردی پاتے ہیں۔ شیوانی کی تحریر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ نہ تو اپنی چاروں جانب کی سچائی سے نفرت کرتی ہے، نہ جذباتیت بھری محبت، وہ زندگی کو کلیت سے سمجھنے کی اور اسے سمجھانے کی ایک ایماندار کوشش کرتی ہے، ان کے محبوب شاعر تلسی کے الفاظ میں:
جس بُدھی بَل وِویک بَل میرے، تَس کہیَیوں ہئیں ہری کے پریرے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔