بلقیس بانو معاملہ: کیا عدالت کے فیصلہ نے مودی کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا؟
بلقیس بانو معاملہ میں سپریم کورٹ نے اس دن اپنا فیصلہ سنایا جس دن ملک کے وزیر اعظم احمد آباد میں اپنا ووٹ ڈال رہے تھے، اس فیصلہ نے ایک مرتبہ پھر 2002 کے گجرات فسادات کی خوفناک یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے گجرات فساد کی ایک متاثرہ بلقیس بانو کے حق میں اس دن انصاف کا فیصلہ سنایا جس دن گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی اور آج کے وزیر اعظم نریندر مودی احمدآباد میں اپنا ووٹ ڈالنے گئے ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے 2002 گجرات فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی شکار بلقیس بانو کو سرکاری ملازمت اور ان کی پسند کی جگہ پر رہائش مہیا کرانے کے ساتھ ہی انھیں 50 لاکھ روپے معاوضہ بھی دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اس کے لیے گجرات حکومت کو دو ہفتہ کا وقت دیا ہے اور کہا ہے کہ سرکاری ملازمت اور ان کی پسند کی جگہ پر سرکاری رہائش مہیا کرائے جانے سے متعلق پیش رفت جلد ہو۔ واضح رہے گجرات حکومت نے بلقیس بانو کو معاوضہ کی شکل میں 5 لاکھ روپے دینے کی تجویز پیش کی تھی جسے بلقیس بانو نے مسترد کر دیی تھی۔ ریاستی حکومت نے عدالت سے کہا تھا کہ حکومت میں پانچ لاکھ روپے سے زیادہ معاوضہ دینے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
عدالت کے اس فیصلہ سے جہاں بلقیس بانو کو انصاف ملا وہیں عدالت کا یہ فیصلہ اس وقت کی گجرات حکومت کی نا اہلی کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ بات اس لئے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے کیونکہ سال 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت والی گجرات حکومت کو ہی سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا اور پورے انتخابات میں گجرات ماڈل کے ہی چرچے کیے گئے تھے۔ بلقیس بانو معاملہ میں عدالت کے فیصلہ نے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلی کے خلاف کئی سول کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس فیصلہ نے گجرات ماڈل کی پوری طرح ہوا نکال دی ہے اور بی جے پی کی گجرات حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ متاثرہ کو معاوضہ دینے میں کسی قسم سست روی سے کام نہیں لے سکتی۔ عدالت نے کل فیصلہ دیتے وقت تلخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے گجرات حکومت کو سرزنش بھی کی اور کہا کہ ’’خود کو قسمت والا سمجھیے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی تبصرہ نہیں کر رہے ہیں‘‘۔
قابل غور ہے کہ گجرات فساد کے دوران جان بچا کر بھاگ رہی بلقیس بانو اور ان کی فیملی پر 3 مارچ 2002 کو ہتھیاروں سے لیس فسادیوں نے حملہ کیا اور بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی۔ اتنا ہی نہیں، ان کی 2 سالہ بچی کو بھی مار دیا گیا تھا۔ اس دن بلقیس بانو کی فیملی کے کل 14 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔ اس وقت بلقیس بانو کی عمر صرف 19 سال تھی۔ انصاف کے لیے بلقیس نے کئی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ بالآخر 17 سال بعد سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ وزیراعظم کو اس فیصلہ کی روشنی میں ان فسادات کے لئے معافی ضرور مانگنی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔