بہار: ترقی کی راہ میں کئی رخنات، سب سے زیادہ فکر انگیز نظامِ قانون! (موہت ستیانند کا مضمون)
جب تک جھارکھنڈ کو بہار سے علیحدہ نہیں کیا گیا تھا، اس کے پاس کثیر مقدار میں معدنیاتی وسائل تھے، تب بھی اس کی فی کس آمدنی 52 ہزار روپے سالانہ تھی، یہ اوسط ہندوستانی کا ایک تہائی حصہ ہے۔
اگر بہار کوئی ملک ہوتا تو یہ دنیا کے سب سے غریب بڑے ممالک میں شامل ہوتا۔ ملک کے طور پر ’سب سے غریب‘ کا مطلب ہر سال 1000 ڈالر، یعنی 81692 روپے سے کم فی کس آمدنی ہے۔ سب سے غریب ممالک میں سے 15 افریقہ میں ہیں، اور ایسے چار سب سے غریب ایشیائی ممالک میں جنگ سے تباہ سیریا، یمن اور افغانستان کے ساتھ ساتھ کم اِل سنگ کا شمالی کوریا شامل ہے۔ ان میں سب سے بڑا ملک افغانستان ہے جہاں کی آبادی تقریباً 4 کروڑ ہے۔
بہار نہ تو جنگ زدہ ہے اور نہ یہاں تیسری نسل کی تاناشاہی ہے۔ یہ گنگا کے میدان میں وسط میں ہے۔ جب تک جھارکھنڈ اس سے الگ نہیں ہوا تھا، اس کے پاس کثیر مقدار میں معدنیاتی وسائل تھے۔ تب بھی اس کی فی کس آمدنی 52 ہزار روپے سالانہ تھی۔ یہ اوسط ہندوستانی آمدنی کا ایک تہائی حصہ ہے، اور گوا کے لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو ایک دہائی ہے۔ گوا میں فی کس آمدنی 571847 روپے ہے جو تھائی لینڈ کے برابر ہے۔ ایک ہی مک کی دو ریاستوں میں ایک دہائی کا فرق غیر فطری ہے۔ مثال کے لیے امریکہ میں نیویارک ریاست اور میساچوئٹس کے باشندوں کی فی کس آمدنی 76000 ڈالر ہے جبکہ مسیسپی میں یہ 35000 ڈالر ہے جو 2.2 کا فرق ہے۔
سوچا یہ گیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی الگ الگ ریاستوں میں آمدنی برابر ہو جائے گی۔ لیبر پاور ایسی جگہ جائے گی جہاں آمدنی ہوگی اور مالک ایسی جگہ جائیں گے جہاں مزدوری کم ہوگی۔ زندگی یقینی طور پر معاشی ماڈل سے زیادہ پیچیدہ ہے اور لیبر پاور اور صنعت کا اِدھر اُدھر جانا مزدوری کی سطحوں سے زیادہ ہی کچھ ہے۔ یقیناً سب سے بڑا رخنہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مناسب مستقل ملازمتیں ہیں ہی نہیں۔ بہار مہاجر لیبر پاور کا اہم ذریعہ ہے، لیکن یہاں ہجرت کی فطرت سرکلر یعنی دائرہ کی مانند ہے۔ چاہے زراعت ہو یا تعمیری کام، بیشتر روزگار عارضی اور غیر یقینی والے ہیں۔ مزدوری کی شرحیں اتنی اونچی نہیں کہ وہ شہروں میں کرایہ دینے اور پورے کنبہ کی بہتر پرورش اٹھانے کے لائق ہوں۔ اس لیے گاؤں کا گھر، اور اگر ہو تو، زمین سہارا بنا رہتا ہے۔ اور بیشتر فیملی زیادہ آمدنی والے علاقوں میں مستقل طور پر نہیں بستے ہیں۔
ماہر معیشت سدیپتو منڈل 45 سال بعد پلاموں گئے جو اب جھارکھنڈ میں ہے۔ انھوں نے یہ بات بتائی کہ دہائیوں کی سرکاری کوششوں سے ’زمینی انفراسٹرکچر کی مکمل تبدیلی ہو گئی ہے‘۔ چاہے جھارکھنڈ ہو یا بہار، سڑک، بجلی اور سیل فون نے دوردراز گاؤں کو دنیا سے جوڑ دیا ہے۔ عوامی نظامِ تقسیم (پی ڈی ایس) کے ذریعہ دستیاب اناج کے سبب بھکمری تقریباً غائب ہو گئی ہے۔ عوامی کام ہونے کے ذریعہ منریگا منصوبہ کچھ آمدنی پیدا کر رہی ہے۔ لیکن اس طرح کے طریقوں کے باوجود بہار کے 40 فیصد سے زیادہ بچے غیر ترقی یافتہ ہیں اور یہاں کے نصف سے زیادہ لوگ نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غریب انڈیکس کے مطابق غریب ہیں۔ عوامی تعلیم بیشتر ہندوستانی گاؤں میں دستیباب ہے، اور پرائمری سطح پر داخلہ تقریباً پورا کا پورا ہے۔ ہندوستانی اسکولوں میں کمزور تعلیمی ریزلٹ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن یہ غور کرنے لائق ہے کہ کیا یہ واقعی کام کرتا ہے، جبکہ کافی پڑھے لکھے ڈگری ہولڈرس کو بھی ملازمت نہیں مل رہی ہے۔
دہلی/این سی آر، ممبئی، پونے، حیدر آباد، بنگلورو اور تمل ناڈو پر دھیان دیں، تو رسمی شعبوں میں ملازمتیں کافی گھٹی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہر علاقے میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کافی سرگرمی ہے، ہنر اور صنعتوں کے درمیان، دونوں سطحوں پر۔ ان صنعتوں کے درمیان خریدار اور فروخت کرنے والا رشتہ ہے جو کاروباری سرگرمی بنائے رکھتا ہے۔
بہار میں زمینی انفراسٹرکچر کی حالت ریاست میں کاروبار کی ترقی کی اہم رکاوٹ ہے، لیکن جیسا کہ سدیپتو بتاتے ہیں، یہ فرق دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے۔ لیکن بہارمیں نظامِ قانون کی حالت بدنام ہے، اور یہ سرمایہ کاری کو لے کر مدد کرنے والی نہیں ہے۔ ابھی اپریل میں ہی ہمیں پتہ لگا کہ ریاست میں 500 ٹن کے پل کو چرانا ممکن ہے جو مشہور ہندی نغمہ کے ایک ٹکڑے کو اس طرح بدل کر پیش کر سکتا ہے: ’چرا لیا ہے تم نے جو پل کو، نہر نہیں چرانا صنم‘۔
ہنسی مذاق اپنی جگہ، ہندوستان جیسے عظیم ملک میں سرمایہ کاری اور کام کے بہتر امکانات والے مقامات کے نقشے سے کسی ریاست کا الگ ہو جانا بہت آسان ہے، اور بہار پر اس کا گہرا سایہ ہے۔ اس میں تبدیلی لانے کے لیے بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ تبدیلی کیسے ہوگی، ریاست اس کے لیے کتنا تیار ہے، اور ریاستی و مرکزی حکومتیں ان تبدیلیوں کو کس طرح حقیقت کا جامہ پہنا سکتی ہیں۔ اور سب سے اہم بات کہ بہار کا اوسط شخص ہندوستانی معیشت میں اپنی جگہ کہاں رکھتا ہے۔ پھر بھی شناخت اور بھائی چارے کے نظریہ سے میں اس بات پر برا محسوس کرتا ہوں کہ اکیسویں صدی کا پہلا چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد بھی کسی ملک جیسی اس بڑی ریاست میں افریقہ کی سطح کی آمدنی ہے۔ میں اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن میں اس کی وجہ جاننے کی کوشش ضروری سمجھتا ہوں۔
(موہت ستیانند مشہور و معروف صنعت کار ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔