بھارت جوڑو یاترا: ہندوستان کی ’دوبارہ‘ تلاش
کنیا کماری سے 7 ستمبر 2022 کو شروع ہونے والی اور 30 جنوری 2023 کو ختم ہونے والی 3750 کلومیٹر طویل 'بھارت جوڑو یاترا' کے دوران قومی آواز پر شائع ہونے والے فکر انگیز مضامین کے اقتباسات:
’بھارت چھوڑو‘ تحریک کا دوسرا مرحلہ ’بھارت جوڑو‘
...
..... ....
اگست 1942 میں یوسف مہر علی کی عمر 40 بھی نہیں تھی، جب انہوں نے ’کوئٹ انڈیا‘ نامی کتاب لکھی اور اسے باقاعدہ تقسیم کرایا۔ مجوزہ سول نافرمانی تحریک کا نام ’کوئٹ انڈیا‘ رکھنے کی تجویز یوسف مہر علی نے پیش کی تھی اور گاندھی جی کو یہ پسند آ گئی تھی۔ اس وقت تک آزادی کی وکالت کرنے کے لئے وہ کئی مرتبہ جیل جا چکے تھے۔ وہ بمبئی کے سب سے کم عمر کے میئر تھے اور اپنی انتظامی صلاحیت اور عوامی مفاد کے فیصلوں کے سبب کافی مشہور ہو گئے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ‘کوئٹ انڈیا‘ کا نعرے ملک کے کونے کونے میں کروڑوں لوگوں کی زبان پر چڑھ گیا اور لوگوں نے اس کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجہ میں۔ مراتھی میں یہ ‘چالے جاؤ‘ بنا اور ہندی میں اسے ’بھارت چھوڑو‘ کہا گیا۔ زبان کوئی بھی ہو مگر جذبہ صرف ایک تھا کہ ’بس، اب بہت ہو چکا!‘
’بھارت چھوڑو‘ اور ’بھارت جوڑو‘ میں صرف صوتی تک بندی کی ہی مماثلت نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد وجوہات موجود ہیں جو ’بھارت جوڑو‘ کو ’بھارت چھوڑ‘ کا دوسرا مرحلہ بناتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ تحریک آگے بڑھے گی اس کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جائے گا۔ لوگ اس سے اسی طرح کا جڑاؤ محسوس کریں گے جیسا ’بھارت چھوڑو‘ سے کرتے تھے۔
اگر آگے بھی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو تو حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں انگریزی میں اسے ‘کنیکٹ انڈیا‘، کنڑا میں ’سمپرکیسلو بھارت‘ تمل میں ’انّاکا ناکو‘ اور گجرات میں اسے ’دیش جوڑیشو‘ کہا جانے لگے۔ یہ تحریک ایک مرتبہ پھر بے بسی اور گھٹن میں زندگی گزار رہے کروڑوں لوگوں کی آواز بننے جا رہی ہے۔
اس تحریک کا مقصد لوگوں کو یہ یاددہانی کرانا ہے کہ ہندوستان کی تعمیر ایک ایسے آئین کی بنیاد پر ہوئی ہے جو اسے ریاستوں کی یونین بناتا ہے۔ مختلف مذاہب کی پیروی کرنے، مختلف رسم و رواج پر عمل کرنے اور مختلف زبانی شناخت والے لوگ اس لئے ایک ساتھ رہ سکے کیونکہ ہم نے کثرت کا احترام کیا اور ہم اس لئے ’ایک‘ ہیں کیوں ہم ’انیک‘ ہیں۔
آسان الفاظ میں ’بھارت جوڑو‘ کا مقصد لوگوں کو آئین سے منسلک کرنا ہے۔ تقسیم کاری کی لگاتار بمباری کی وجہ سے یہاں کے لوگوں اور ہندوستان کے تصور میں جو دراڑ پیدا ہو گئی ہے اس سے ختم کرنا اس تحریک کا اصل مقصد ہے۔
’بھارت چھوڑو‘ کی طرح ہی ’بھارت جوڑو‘ تحریک بھی ہندوستانیوں سے وابستہ ہے، خواہ وہ کسی بھی صنف، عمر، ذات، مذہب اور معاشی حالات سے تعلق رکھتے ہون۔ یہ تحریک اس طرح کے ہندوستان کو حاصل کرنے کی ہے جس طرح کا وہ تھا۔ یہاں کے لوگ ہندوستان کو ایک ایسے جمہوری، ریاستوں کی یونین اور مہذب ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد باہمی احترام پر ٹکی ہو۔ بھارت جوڑو یاترا اسی صورت کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔
...... ......
بھارت جوڑو یاترا: بغیر کچھ کہے خیرسگالی کا پیغام
...
مہاراشٹر کے ہنگولی ضلع میں ہے لیکن ضلع سے باہر کے لوگ اس سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس جگہ کی سماجی یا تاریخی اہمیت نہیں ہے۔ اس کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں تاریخی طور پر ایک اہم صوفی بزرگ کی درگاہ ہے، جن کا نام نوری بابا تھا۔ صوفی تاریخ میں ان کا نام حضرت سرکار سید نورالدین نوری شاہد چشتی کلام نوری ہے۔
نور درگاہ گزشتہ چھ صدیوں سے کلام نوری میں موجود ہے۔ یہاں اسے بہت عزت دی جاتی ہے اور کلام نوری کے لوگوں نے گزشتہ چھ صدیوں کی تاریخ کے دوران مختلف حکومتوں میں رہنے کے بعد بھی اس کی حرمت کو برقرار رکھا ہے۔ کلام نوری کی مخلوط مذہبی آبادی ہے۔ یہ ناندیڑ سے زیادہ دور نہیں ہے جو سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے اور اس جگہ سے بھی زیادہ دور نہیں جہاں بسویشورا نے تقریباً ایک صدی قبل تبلیغ کی تھی۔
میں حال ہی میں کلام نوری اس لیے خبروں میں تھا کیونکہ بھارت جوڑو یاترا پر نکلے یاتریوں سمیت راہل گاندھی اس شہر میں پہنچے اور یہاں ایک رات گزاری۔ اس کے لیے شاعر-ناول نگار شری کانت دیشمکھ اور مفکر دتا بھگت نے 'ساہتیہ دنڈی' کے نام سے ادیبوں کا ایک گروپ بنایا۔ ڈنڈی اپنی پرانی روایت کے لیے مشہور ہے جو 'شاعروں کے گروپ' کی سالانہ پنڈھار پور یاترا میں شامل ہے جسے 'واری' کہا جاتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا میں راہل گاندھی سے ملنے میں ان کی مدد کر سکوں گا کیونکہ میں بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ سول سوسائٹی کے تعاملات کا اہتمام کرنے میں شامل ہوں۔ میں یاترا کے کلام نوری پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا تو میں نے کیمبرج انگلش اسکول کے کیمپس میں قلمکاروں کو جمع پایا۔
راہل گاندھی سے ہماری ملاقات دوپہر 2 بجے طے تھی۔ ہمیں ایک گھنٹہ پہلے ٹینٹ پر پہنچنے کا کہا گیا۔ تقریباً 25 ادیبوں اور کارکنوں کے گروپ میں سب کو حیرت میں ڈال کر، کانگریس کے سینئر لیڈروں نے ذاتی طور پر ان کا خیرمقدم کیا، ان سے بات چیت کی اور انہیں میٹنگ کے لیے مخصوص جگہ پر لے گئے۔ جلسہ گاہ ایک چھوٹے سے ٹینٹ میں تھی، جو صاف ستھرا اور منظم تھا۔
راہل گاندھی وقت پر وہاں پہنچ گئے۔ اگرچہ وہ صبح 15 کلومیٹر پیدل چل چکے تھے لیکن ان میں تھکاوٹ کی کوئی علامت نہیں تھی۔ وہ خوش و خرم نظر آ رہے تھے۔ میں نے ان کا گروپ سے تعارف کرایا اور تینوں مصنفین نے اپنے نکات کا خلاصہ کیا، پھر پوچھا کہ کیا وہ کچھ کہہ سکتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کے لیے متجسس تھے کہ کیا مصنف ایک ایسے لفظ کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو تمام کھیتی باڑی کرنے والے اور محنتی لوگوں کو بیان کر سکے، ایسا لفظ جس میں حقارت یا بے عزتی کا کوئی مفہوم نہ ہو۔ انہوں نے کئی اصطلاحات جیسے کہ 'دلت'، 'مزدور'، 'بہوجن'، 'لوک/لوگ'، 'جنتا' وغیرہ کے معنوی سطحوں اور سماجی مفہوم کے بارے میں بحث چھیڑ دی۔ بات چیت کے دوران او بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور اقلیت جیسی تاریخی طور پر استعمال ہونے والی اصطلاحات کا ذکر کیا گیا۔
راہل نے کہا کہ براہ کرم غور کریں کہ ہم ہندوستان کی اتنی بڑی اکثریت کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں جو کھیتی باڑی میں مصروف ہے، ایک اکثریت جو 'دیتی ہے'، انہیں وہ عزت دینے کے بارے میں، جو تاریخ اور سماج نے انہیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔
راہل گاندھی ہر روز ایسے گروہوں سے ملتے ہیں، لوگوں سے بات کرتے ہیں، ان کی زندگیوں، ان کے جذبات اور ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے ساتھ اپنے تحفظات شیئر کرتے ہیں، ایسے معاشرے کی تشکیل کے اپنے خواب کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جو نیک نیتی کے ساتھ رہے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کوئی عام سیاسی تقریب نہیں ہے۔ راہل صرف انگریزی اور ہندی بولتے ہیں، کوئی اور ہندوستانی زبان نہیں، پھر بھی، یاترا کی اپیل وہ نہیں ہے جو یہ کہتی ہے؛ یہ بہت کچھ کہے بغیر لاکھوں لوگوں کے دل و دماغ کو اثر انداز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حقیقتاً یہ وہی کہتی ہے جو کلام نوری میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان پرانی ہم آہنگی ہندوستان سے کہتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ’’کوئی بات نہیں اگر آپ ہماری موجودگی کو قبول نہ کرتے لیکن میں وقت کے دائرے سے باہر ہوں اور جب تک ہندوستان ہندوستان ہے، میں یہیں رہوں گی۔‘‘
یاترا کا آسمان اور مستقبل کے چیلنجز
...
بھارت جوڑو یاترا سب کے لیے غیر معمولی طور پر کامیاب نظر آ رہی ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کرنا اب پرائم ٹائم ٹی وی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یکطرفہ ہی ہیں، پھر بھی ان سب کو لاٹھی سے ’منصوبہ بند‘ کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ کم از کم یہ سمجھنے کی تو کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا کتنا اور کیا اثر ہوا ہے۔ صرف ٹی وی مباحثوں میں ہی نہیں سیاسی حلقوں میں بھی اس کا چرچا ہو رہا ہے۔ عام آدمی یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو اسے بالکل نئی شروعات کے طور پر پیش کرتی ہے۔
اب یہ واضح ہے کہ اس کی منصوبہ بندی انتخابی فوائد کے لیے نہیں کی گئی۔ ہماچل اور گجرات کے انتخابات سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اس کا بنیادی مقصد انتخابی سیاست نہیں تھا۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مقصد اپوزیشن کو متحد کرنا تھا۔ ہم ان فضائی قیاس آرائیوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب راہل گاندھی کی سیاسی شبیہ کو چمکانے کے لیے تھا۔ پھر بھی سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا نہیں تو مقصد کیا ہے؟ اور اگر واقعی کوئی اور مقصد ہے تو سامنے کیوں نہیں آتا؟ یہ سوال جس طرح لوگوں کے ذہنوں میں بغیر کسی بدنیتی کے گھر کر گیا ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جواب یہ ہے کہ یاترا کا نام 'بھارت جوڑو' (پھر سے جوڑنا) اپنے آپ میں مقصد بتانے کے لیے کافی ہے؟ تاہم یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر واقعی اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے پیدا کردہ ٹکڑے ٹکڑے کی نوعیت کو دیکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں (عیسائیوں کے ساتھ ساتھ) کے درمیان اعتماد کا شدید بحران، بہت امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آسانی سے نظر آتی ہے۔ یاترا کے دوران راہل گاندھی نے اپنی تقریروں میں بار بار اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے۔
آر ایس ایس نے مزید تین تفرقہ انگیز کام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ ایک خاص طور پر ڈیزائن کردہ 'ذہنی دیوار' کو کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ تین دیواریں ہیں ایک، چیزوں کی حقیقت اور ان کے بارے میں پھیلی ہوئی معلومات کے درمیان۔ میڈیا کو اس تقسیم کا آلہ کار بنایا گیا ہے۔ دوسری، زندہ اور مردہ کانگریس لیڈروں کے بارے میں بڑے پیمانے پر منفی تشہیر۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کبھی کسی سیاسی جماعت نے اپنی حریف پارٹی کے لیڈروں کو بدنام کرنے کے لیے اتنی توانائیاں صرف نہیں کیں اور نہ ہی اتنا زہر اگلا۔ تیسری، آر ایس ایس نے جو دیوار کھڑی کی ہے وہ ہندوستان کے لوگوں اور اس کے ماضی کے بارے میں ہے۔
آر ایس ایس کی 'قوم پرستی' کی پوری عمارت 'ایک بار کے شاندار' ہندو ہندو بھارت کے تصور پر مبنی ہے۔ موجودہ حکومت اس خیال کو پھلنے پھولنے کے لیے ہر ممکن کھاد اور پانی دے رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر ہندوستان کو اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ بھی معلوم تھا، اسے یورپی اسکالرز اور مورخین کی ایک شیطانی سازش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہاں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ حال ہی میں چنئی میں منعقدہ انڈین ہسٹری کانگریس میں اس کے صدر پروفیسر کیسوان ویلاتھوٹ کو یہ کہنا پڑا کہ واجپائی حکومت نے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کی شائع کردہ دستاویزات کو دبانا شروع کر دیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کی برطانوی راج کے ساتھ ساز باز تھی۔
...جی این دیوی
سماج کو حقیقی معنوں میں سیکولر بنانے کی سمت میں اٹھایا گیا اہم قدم
...
-- --
مہاتما گاندھی نے سب سے پہلے ہندوستان میں سیاست کو حقوق نسوانی کی تحریک میں تبدیل کیا۔ یہ درست ہے کہ 1915 میں جنوبی افریقہ سے ان کی ہندوستان واپسی سے قبل ہندوستانی سیاست میں اور انڈین نیشنل کانگریس میں بھی خواتین موجود تھیں لیکن وہ کم تھیں اور تقریباً سبھی اعلیٰ ذاتوں اور اشرافیہ خاندانوں سے تھیں۔
ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے شرکت نہیں کی۔ ان میں سے بہت سی امیر خواتین تھیں جنہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے پرزور انداز میں بحث کی اور اپنے ووٹ اور الیکشن لڑنے کے حق کو یقینی بنایا۔ بنگال میں خواتین نے برطانوی سلطنت کے خلاف مسلح بغاوت میں بھی حصہ لیا لیکن آپ انہیں انگلیوں پر گن سکتے ہیں لیکن عدم تشدد کی تحریک یقیناً زیادہ تر خواتین کے لیے موزوں تھی۔ وہ گاندھی کے ستیہ گرہ میں حصہ لینے کے لیے بڑی تعداد میں گھروں سے نکلیں۔ یہ ہماری سیاست کی ایک حقوق نسوان کی تحریک تھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی - گاندھی نے وہ دروازہ کھول دیا تھا۔
ایک صدی بعد ’بھارت جوڑو یاترا‘ ان دنوں کی یادوں کو تازہ کر رہی ہے جب خواتین - چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھی - راہل گاندھی کے ساتھ یاترا کرنے نکلی آئی ہیں۔ یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ خواتین اب بھی لوک سبھا میں صرف 14 فیصد ہیں۔ وہ ریاستی مقننہ میں بھی کم ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سیاست قابل فروخت، پرتشدد اور مردوں کے زیر تسلط میدان بن چکی ہے اور وسیع پیمانے پر اس اسی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔
..... ....
عام طور پر ایک تہائی یاتری خواتین ہیں، حالانکہ بھیڑ اب بھی اہم طور پر مردوں کی ہے۔ خواتین راہول گاندھی کے پاس بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جا رہی ہیں- چاہے وہ جوان ہوں یا برزر۔ وہ پرتپاک طریقہ سے سب کے سامنے راہل گاندھی کو گلے لگا رہی ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک بہتر ہندوستان کے لیے اپنے تجربات اور خیالات کا اشتراک کرتی نظر آتی ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا کی تصویریں اور ویڈیوز پرزور طریقہ سے ہندوستانی سیاست کے نسوانی شکل کے ایک اور مرحلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والی کوئیر رائٹس ایکٹیوسٹ چانیکا شاہ کھل کر کہتی ہیں کہ ’’میں نے ان ویڈیوز کو طویل عرصے سے دیکھا ہے، کبھی کبھی ایک وقت میں 15 منٹ کے لیے اور میں ان سے مسحور ہوں۔‘‘ وہ کہتی ہیں ’’خواتین عوامی طور پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہیں، رو رہی ہیں، یہ بہت ہی طاقت ور تصاویر ہیں۔‘‘
..... ....
اتر پردیش کے شاہنواز عالم بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوتے ہوئے کئی ریاستوں سے گزرے ہیں اور انھوں نے ایک خاص بات محسوس کی ہے۔ یوپی میں پارٹی کے اقلیتی سیل کے سربراہ شاہنواز یاد کرتے ہیں کہ جب یاترا مہاراشٹر میں تھی تو کنوینرس اور لوگوں، دونوں کا اس بات پر زور تھا کہ راہل گاندھی انّا بھاؤ ساٹھے، شیواجی مہارا، مہاتما پھولے، بابا صاحب امبیڈکر اور ان جیسے سماجی مصلحین کی یادگاروں کی یاترا کریں۔ اس کے برعکس کرناٹک میں گزارش یہ تھی کہ وہ مندروں میں جائیں۔
یاترا کے شروع میں جنوبی ریاستوں سے گزرتے ہوئے بھی راہل گاندھی نے کے. کامراج، تھرو-ولور، وویکانند، پیریار اور شری نارائن گرو کی یادگاروں کا دورہ کیا۔ راہل گاندھی جس کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کانگریس نے کے. کامراج کو تمل ناڈو کا وزیر اعلیٰ اور کانگریس صدر بھی بنایا۔ کامراج تمل ناڈو کے انتہائی پسماندہ طبقہ ’نادر‘ کنبہ سے آتے تھے۔ کامراج نے جو فلاحی منصوبے شروع کیے، ان کا فائدہ ریاست کے غریبوں، دلتوں اور پسماندہ کنبوں کے بچوں کو تعلیم دلانے میں ملا۔ حاشیے کے طبقات کے لیے ان کے کام ریاست کے غیر کانگریس لیڈر بھی بے جھجک قبول کرتے اور یاد کرتے ہیں۔ سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجہ یاد کرتے ہیں کہ ’’اگر کامراج کی مڈ ڈے میل اسکیم نہ ہوتی تو میں کبھی پڑھ لکھ نہیں پاتا۔‘‘ ڈی راجہ اکثر کہتے ہیں کہ وہ بھوکے رہے ہیں اس لیے انھوں نے کبھی سیاسی یا علامتی ’بھوک ہڑتال‘ نہیں کی۔
کانگریس نے آزادی سے پہلے اور بعد میں سماج اور سیاست میں سلسلہ وار تبدیلی لانے میں کردار نبھائے۔ یہ طویل مدت سے کانگریس کی وراثت رہی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے حامی اور ناقد یکساں طریقے سے انتظار کر رہے ہیں کہ کیا یاترا اور یقینی طور پر راہل گاندھی خود اس وراثت پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ یاد کرنے والی بات ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعہ پیش ہندو کوڈ بل کو پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کانگریس کے اندر کی جنوب پنتھی طاقتوں اور باہری ہندو تنظیموں کے دباؤ میں پارلیمنٹ سے پاس کرانے میں ناکام رہے تھے۔ تب انھوں نے تین مختلف بل پیش کیے جسے پارلیمنٹ کی منظوری ملی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کانگریس کے اندر تو پنڈت نہرو کے قریب تھے، لیکن ان کے ساتھ ان کی نااتفاقی تھی کیونکہ نہرو حکومت اور پارٹی کے لیڈر کے طور پر کامیابی اور ناکامی کے ذمہ دار تھے۔ یہ ان دونوں کے رشتوں کی تشریح کرتا ہے جسے کچھ مورخین گہری محبت اور نااتفاقی کی طرح دیکھتے ہیں۔ پھر بھی پنڈت نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر کو ایسے ہندوستان کی تعمیر میں ایک دوسرے کی صلاحیت پر پورا یقین تھا جس میں ہر شخص یکساں ہوگا۔
راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی اہمیت اس طویل تاریخ میں ہے جب پارٹی اور اس کی تنظیم نہ صرف سیاسی طور پر سرگرم تھے بلکہ مشمولہ ریاستی نظام، برابری اور سماجی تبدیلی کو لے کر پرعزم رہے تھے۔ اس لیے بھارت جوڑو یاترا کو سماجی بھائی چارہ لانے اور اسے مضبوط کرنے کی یاترا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے عظیم بہوجن دلت لیڈروں اور مصلحین و ان کے نظریات کی وراثت کو زندہ کرنے اور ان پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے اضافی کوشش کے طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ سماج کو حقیقی معنوں میں سیکولر بنانے کی سمت میں اہم قدم ہوگا۔
...سنجیو چندن
’رُک کے دیکھے نہ کبھی پاؤں کے چھالے ہم نے!‘
...
دس دن اور 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد متعدد یاتریوں کے پاؤں میں چھالے پڑ چکے ہیں، ٹخنوں میں سوجن ہے، گھٹنوں کا درد اور دوسری پریشانیوں کا بھی سامنا ہے۔ یہاں تک کہ کئی یاتریوں کے پاؤں تو زخمی بھی ہو چکے ہیں، جن سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ بظاہر تھک چکے ہیں اور کچھ کو تو یہ ڈر بھی ستانے لگا ہے کہ آیا وہ منزل مقصود تک ساتھ نبھا پائیں گے؟ کنیا کماری سے 150 دنوں میں کشمیر تک 3570 کلومیٹر پیدل چلنے کا خیال بھی پریشان کن ہوتا ہے۔ یہ شعر پد یاتریوں کے لیئے موزوں ہے، ’زندگی نام ہے چلنے کا تو چلتے ہی رہے، رک کے دیکھے نہ کبھی پاؤں کے چھالے ہم نے!‘
لیکن یاترا چھوڑنے کا خیال تک ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ بھارت یاتریوں (جو پوری یاترا ساتھ رہیں گے) کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا کہ پہلے چند سو کلومیٹر سب سے مشکل ہوں گے۔ وہ اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کا جسم اور پاؤں روزانہ 20-25 کلومیٹر پیدل چلنے کے عادی ہو جائیں گے۔ انہوں نے دگوجے سنگھ جیسے تجربہ کار پدیاتریوں سے سنا ہے کہ ’اس موڑ‘ کے بعد یہ طویل مارچ بہت آسان ہو جائے گا۔ تمام یاتری اس نقطہ تک پہنچے کی جستجو میں پورے خوش و خروش کے ساتھ درد کی انتہا تک پہنچنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔
وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ میڈیا میں ایسے لکڑبگے گھات لگائے بیٹھے ہیں جو کسی کے بھی یاترا چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یقیناً ٹی وی چینلز بے قابو ہو جائیں گے! انہیں 81 سالہ اے کے انٹونی نظر آ رہے ہیں، جو یاتریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے باہر نکلے ہیں اور وہ راہل گاندھی سے بھی خوفزدہ ہیں، جو تیز رفتاری سے چلتے ہیں اور کوئی ایسی علامت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کہ انہیں کوئی دقت محسوس ہو رہی ہے۔
یاترا میں ایک ایسی توانائی پیدا ہو گئی ہے جو ایک یاتری سے دوسرے یاتری میں منتقل ہو رہی ہے۔ ان کا درد اکثر انہیں سست کر دیتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں، مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور پیش قدمی کرنے لگتے ہیں۔ راستہ میں لوگوں کا انہیں خراج تحسین پیش کرنا، انہیں پانی پلانا اور پھولوں کے ہار پہنانا ان کا حوصلہ بلند کرتا ہے۔ ایک یاتری کے بقول ’ایک بڑے مقصد کے مقابلہ میں ہم جو درد برداشت کر رہے ہیں وہ بہت معمولی سا ہے!
چھتیس گڑھ کے جشپور سے تعلق رکھنے والی رتنا پینکرا لنگڑا رہی ہیں۔ ان کے گھٹنے میں شدید درد ہے لیکن وہ فاصلہ طے کرنے پر مصر ہیں۔ ان کا خاندان کنیا کماری سے کشمیر تک چلنے کے ان کے فیصلے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ضلع پریشد کی رکن پینکرا کہتی ہیں ’’ملک ٹوٹ رہا ہے۔ لوگوں کی خوشحالی کے لیے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہم چھوٹی موٹی سیاست پر وقت ضائع نہیں کر سکتے۔ ہم ملک کی دوسری تقسیم یا خانہ جنگی کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
ترواننت پورم کے نیموم کی رہنے والی دیلا بیوی راہل گاندھی کو سب سے زیادہ معتبر سیاست دان قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ملک میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے سیاستدانوں کی حمایت کرنا ضروری ہے۔‘‘ وہ ایک 'پردیش یاتری' ہیں۔
تلنگانہ سے تعلق رکھنے والی انولیکھا بوسہ وکیل اور کانگریس سے وابستہ این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا) کی انچارج قومی سکریٹری اوڈیشہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’آپ انہیں ٹی وی پر نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی ٹی وی اسٹوڈیوز میں ان کی آوازیں سنیں گے لیکن ایسے ہندوستانی ہیں جو شدت سے تبدیلی چاہتے ہیں۔ انہیں سننے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
تلنگانہ کی ایک اور رہائشی اور سرپنچ فورم کی ریاستی صدر دھن لکشمی کہتی ہیں ’’میں تمام ریاستوں کا دورہ کرنا چاہتی ہوں اور کسانوں اور خواتین کے مسائل کو سمجھنا چاہتی ہوں۔ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ کیرالہ میں زمین کی کمی ہے لیکن یہاں کے لوگ متحد ہیں۔‘‘ دھن لکشمی کے لیے پیدل چلنا آسان ہے کیونکہ وہ بھودان تحریک کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر تلنگانہ کے بھودان پوچامپلی سے مہاراشٹر کے سیواگرام تک 600 کلومیٹر کی پیدل یاترا کا حصہ رہ چکی ہیں۔
ایشلن میتھیو (تمل ناڈو اور کیرالہ، 18 ستمبر 2022)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔