بیتے دنوں کی بات: ٹکوزی بھی کبھی آن بان شان کی نشانی ہوا کرتی تھی
ٹکوزی در اصل وہ روئی دار ٹوپی ہوا کرتی تھی جس کے ذریعہ چائے کی کیتلی کو ڈھانپ کر مہمان کے سامنے چائے پیش کرنے کے لئے لائی جاتی تھی اور اس کا مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ چائے ٹھنڈی نہ ہو۔
دیکھنے کی بات دور کی ہے، شاید نئی نسل نے ٹِکوزی کا نام بھی نہ سنا ہو۔ نئی نسل کو شاید معلوم بھی نہیں ہوگا کہ ٹکوزی کس کام آتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹِکوزی کا استعمال امیروں کے گھر میں ہوا کرتا تھا، یا یوں کہئے کہ یہ بھی امیروں کی پہچان ہوا کرتی تھی۔
ٹکوزی در اصل وہ روئی دار ٹوپی ہوا کرتی تھی جس کے ذریعہ چائے کی کیتلی کو ڈھانپ کر مہمان کے سامنے چائے پیش کرنے کے لئے لائی جاتی تھی اور اس کا مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ چائے ٹھنڈی نہ ہو۔ پہلے سردی سے لڑنے کے لئے روئی کو سب سے اثر دار چیز سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے ٹکوزی بھی روئی سے بھری ہوئی چائے کی کیتلی کی ٹوپی کی شکل میں ہوا کرتی تھی۔ آج جیسے سردی سے لڑنے کے لئے بجلی کی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے ویسے ہی چیزوں کو گرم رکھنے کے لئے اب بجلی پر زیادہ بھروسا ہو گیا ہے اور اپنے دیسی طریقے اب ناپید ہو گئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ٹکوزی استعمال کرنے والوں کا شمار امراء میں ہوا کرتا تھا۔ عام گھروں میں تو اس کا استعمال نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن جیسے ہر چیز اپنے آخری دور میں سماج کے مڈل کلاس کے گھروں کی زینت بن جاتی ہے، ویسے ہی ٹکوزی بھی اپنے آخری وقت میں سماج کے مڈل کلاس کے گھروں میں داخل ہو گئی تھی۔ مڈل کلاس کے لوگ جہاں ٹکوزی کا استعمال سامنے والے کو رعب میں لینے کے لئے صرف مہمانوں کے سامنے کیا کرتے تھے، وہیں امراء کے گھروں میں اس کا استعمال عام چلن تھا۔
ٹکوزی سے ڈھکی ہوئی جب چائے کی کیتلی سامنے آیا کرتی تھی تو چائے پینے والا بھی خود پر فخر محسوس کیا کرتا تھا اور پیش کرنے والا تو کیا ہی کرتا تھا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ چائے ٹکوزی کے نیچے کیتلی میں گرم رہا کرتی تھی۔ بہرحال آج چائے تو کیا گھر میں بنا کھانا بھی اووین میں گرم کر کے پیش کر دیا جاتا ہے۔ نہ تو گھر کے بڑوں کے پاس وقت ہے اور نہ ہی بچوں کے پاس۔ سب کو تو موبائل پر سوشل میڈیا اور گیم کھیلنا ہوتا ہے۔ اب مہمانوں کے لئے کس کو کہا ں فرصت ہے۔ گرم کی تو دور کی بات ہے اب یا تو مہمانوں کو باہر ہوٹل میں دعوت دے دی جاتی ہے یا گھر پر آن لائن منگا لیا جاتا ہے۔ وہ بیتے دنوں کی بات ہے جب ٹکوزی آن بان شان کی نشانی ہوا کرتی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔