ایودھیا: تاریخ در تاریخ... ظفر آغا
ایودھیا کی سیاست سے ملک میں زبردست سیاسی و سماجی تبدیلی ہوئی ہے، اب ہندوستان تقریباً ایک ہندو راشٹر دکھائی پڑتا ہے جہاں سے واپس لوٹنا کم از کم ابھی ممکن نہیں دکھائی پڑتا۔
ایودھیا اب ایک تاریخ ہے۔ لیکن ایودھیا اب صرف بھگوان رام سے جڑی تاریخ نہیں ہے۔ ایودھیا جدید ہندوستانی سیاست کا ایک اہم باب بھی ہے۔ ہم نے اس ’تاریخ‘ کو ایک صحافی کی شکل میں بہت قریب سے دیکھا اور تجزیہ بھی کیا ہے۔ فروری 1986 کی وہ ہلکی سردی اب بھی یاد ہے جب اسی ماہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ہم بابری مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر ٹھیک اسی جگہ پر جہاں مولوی کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا ہے، وہاں رام للا وراجمان تھے۔ ہم نے رام للا کے دَرشن کیے اور اسی روز ایودھیا سے دوسرے شہروں کے لیے نکل پڑے۔ اتر پردیش میں اس وقت فرقہ وارانہ فسادات کی آگ پھیل چکی تھی۔ ہم فساد زدہ شہروں کا دورہ کرتے ہوئے واپس دہلی لوٹ آئے۔ بس 2 فروری 1986 کو مسجد کا تالا کھلنے سے لے کر 9 نومبر 2019 تک ایودھیا کا سایہ ہندوستانی سیاست پر کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف چھایا رہا بلکہ دھیرے دھیرے اس فرقہ واراہن سیاست نے مختلف مراحل میں ملک کا سیاسی خاکہ ہی بدل دیا۔ اب یہ حالت ہے کہ ہندوستان تقریباً آر ایس ایس کے خوابوں کا ’ہندو راشٹر‘ بن چکا ہے۔ یہ ہندوستانی سیاست کی ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی امید ایودھیا واقعہ سے پہلے نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن اب یہ ایک تلخ سچائی ہے اور اسے ماننا ہی ہوگا۔ لیکن ایودھیا واقعہ میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے ہندوستان کی سیاست ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں ایسی سماجی تبدیلی بھی پیدا کر دی جس کا امکان بابری مسجد کا تالا کھلنے سے پہلے کر پانا بہت مشکل تھا۔
ایودھیا معاملہ میں ایسی ہر بات تھی جو فرقہ وارانہ سیاست کے لیے موزوں ہو۔ اس معاملہ میں ہندوستان کے دو اہم طبقات ہندو اور مسلمان کے درمیان عقیدہ کا تصادم تھا۔ ایک طرف اللہ کی مسجد تھی، تو دوسری طرف بھگوان رام سے عقیدت۔ ایک طرف یہ دعویٰ تھا کہ مسجد بھگوان رام کے جنم استھان پر مندر توڑ کر بنائی گئی، تو دوسری طرف یہ دعویٰ تھا کہ یہ مسجد مسلم وقف بورڈ کی ملکیت تھی۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی سماج میں اگر دو مذہبی طبقات میں عقیدہ کے نام پر تصادم ہو جائے تو پھر معاملہ ’ناک‘ کا ہی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب بابری مسجد کا تالا کھلا تو پہلے مسلم سماج کی طرف سے ناک بچانے کے لیے راتوں رات بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ اس بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے مسجد تحفظ کے لیے مسلم سماج کو منظم کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں اچانک ایک نئی سیاست نے سر اٹھا لیا۔ آزادی کے بعد یہ پہلا بڑا موقع تھا جب مکمل طور پر ایک ایشو پر کسی طبقہ کو منظم کیا جا رہا تھا۔ مسلم سماج کی بڑی بڑی ریلیاں اور ساتھ میں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر اور ان ریلیوں میں مسلم قیادت مسجد کے تحفظ کے لیے جان دینے کی بات کرتا تھا۔
بابری مسجد ایک معمولی مسجد تو تھی نہیں۔ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے رام مندر تھا، وہ بھی ان کے عقیدہ کے مطابق بھگوان رام کا جنم استھل۔ یعنی یہ دو عقیدے کا براہ راست تصادم تھا۔ یہ ہندوؤں اور مسلموں دونوں کے لیے ناک کا سوال تھا۔ بھلا ہندوتوا سیاست کرنے والی تنظیموں کے لیے اس تصادم سے بہتر اور مناسب موقع اور کیا ہو سکتا تھا۔ مسلم سماج بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سایہ تلے پہلے ہی جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ بلاشبہ اس کا اثر ہندو سماج پر پڑنا بھی شروع ہو چکا تھا۔ ایسے حالات میں سب سے پہلے ہندو عقیدہ کے تحفظ میں وشو ہندو پریشد میدان میں اتر پڑا۔ یہ آر ایس ایس کی طرف سے ایودھیا معاملہ میں پہلی شروعات تھی۔ وی ایچ پی نے اب ہندو ریلیاں شروع کیں۔ ملک میں ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ بلند ہونا شروع ہوا۔ پہلے اتر پردیش کے ہر شہر میں وشو ہندو پریشد کی طرف سے ریلیاں ہونے لگیں اور ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ لگنے لگا۔ مسجد ہٹاؤ، ہندوؤں کو رام جنم بھومی استھل واپس دو کا مطالبہ گونج اٹھا۔ اُدھر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا یہ اصرار کہ مسجد تو ہماری ہے، ہم اس کو کیوں واپس دیں! دو طبقات اور دو عقیدے اب کھل کر تصادم کے لیے تیار تھیں۔
یہ ہندوستانی سیاست میں ایک نیا موڑ تھا۔ برصغیر ہند کی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب دو مذہبی طبقات آمنے سامنے تھے۔ یہ دونوں طبقات اپنے اپنے عقیدہ کے نام پر جدوجہد کر رہے تھے۔ واضح ہے کہ ملک کی سرکردہ سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ ایک بالکل نئی صورت حال تھی۔ اب مذہب اور عقیدہ سیاست کا ایک اہم عضو بنتا جا رہا تھا۔ یہ صورت حال صرف اور صرف ہندوتوا نظریہ پر مبنی تنظیموں کے لیے موزوں ہو سکتی تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ 1984 میں دو لوک سبھا سیٹوں پر محدود بی جے پی مذہب اور عقیدہ کے چڑھے رنگ سے ایسی نکھری کہ 1989 میں اس کی 85 سیٹیں ہو گئیں۔
یہ تو تھا ایودھیا معاملہ کا پہلا مرحلہ، جس نے رام کی عقیدت کی آڑ میں بی جے پی کو ہندوستانی سیاست میں ایک اہم پارٹی کی شکل دے دی۔ ساتھ ہی فرقہ وارانہ سیاست نے کانگریس کو بھی کمزور کر دیا۔ بدعنوانی کو ایشو بنا کر وشوناتھ پرتاپ سنگھ (وی پی سنگھ) ابھر کر سامنے آئے۔ بی جے پی نے ان کو حمایت دی۔ وی پی سنگھ 1989 میں وزیر اعظم بنے۔ لیکن کچھ ماہ میں ان کی پارٹی جنتا دل میں گہری نااتفاقی دیکھنے کو ملی۔ صرف 11 ماہ میں ان کی حکومت گر گئی۔ لیکن وی پی سنگھ نے حکومت جانے سے پہلے ’منڈل کمیشن‘ کی سفارشات پر پسماندہ طبقات کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 27 فیصد ریزرویشن کا اعلان کر دیا۔
ہندوستانی سیاست میں اچانک ’منڈل‘ کے نام پر ایک نیا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ایودھیا معاملے نے مذہب اور فرقہ کی سیاست کو ہوا دی، تو منڈل نے ملک میں ذات پر مبنی سیاست کا چلن شروع کر دیا۔ دیکھتے دیکھتے ہندو سماج میں اعلیٰ اور پسماندہ کے نام پر سماجی و سیاسی شگاف پڑ گیا۔ لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام و مایاوتی نے شمالی ہند میں ذات کی بنیاد پر پسماندہ طبقہ کی سیاست کر کے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو توڑ دیا۔ یہ ہندوتوا سماج اور سیاست کے لیے ایک سنگین حالات تھے۔ اب یہ چیلنج تھا کہ ذات کی بنیاد پر سماج میں جو شگاف پیدا ہوا ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس کا صرف ایک ہی طریقہ تھا، اور وہ تھا اندر کی لڑائی ختم کرنے کے لیے باہر کی ایک لڑائی شروع کر دو۔ اس کے لیے ہندو سماج کو ایک ’باہری دشمن‘ چاہیے تھا۔ وہ دشمن ہندوستان کے تاریخی منظرنامہ میں صرف مسلمان ہی ہو سکتا تھا۔ ایودھیا میں پیدا عقیدہ کے تصادم نے بڑی حد تک مسلمانوں کو پہلے ہی ہندو کا دشمن بنا دیا تھا۔ اس لیے اب ہندوؤں کے سماجی و مذہبی نظام کے پاس صرف آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بی جے پی کا ہی واحد آسرا تھا۔ اس طرح آر ایس ایس اور بی جے پی اب سماجی نظام کے اہم زاویہ ہو گئے۔ اور اس مرحلہ میں اس کی قیادت لال کرشن اڈوانی نے سنبھالی اب ملک کی سیاست پوری طرح سے اڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ کے ارد گرد سمٹتی چلی گئی اور دھیرے دھیرے ہندوؤں کے لیے مسلمان ایک دشمن کی شکل لیتا چلا گیا۔ منڈل سیاست کرنے والی پارٹی اقتدار میں تو سماجی انصاف کے نام پر آئے، لیکن انھوں نے سماجی انصاف کو چھوڑ کر ’یادو اِزم‘ کی سیاست اختیار کر لی۔ پسماندہ میں جو جوش پیدا ہوا تھا اسے سخت ذات پرستانہ سیاست نے دھیرے دھیرے ختم کر دیا۔ اس طرح جو سیاسی خلا پیدا ہوا اس میں مسلم دشمن کی شبیہ کے ساتھ بی جے پی نے مکمل طور پر اپنی شناخت قائم کر لی۔
2014 تک ہندو ذہنیت میں مسلم دشمنی کی شبیہ اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ گجرات میں مسلمانوں کو ’ٹھیک‘ کرنے والے نریندر مودی پورے ملک کے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن گئے۔ اس طرح ایودھیا کی سیاست سے ملک کا سیاسی اور سماجی نقشہ ہی بدل گیا۔ اب ہندوستان تقریباً ایک ’ہندو راشٹر‘ دکھائی پڑتا ہے، جہاں سے واپس لوٹنا کم از کم ابھی ممکن نہیں دکھائی پڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح بابری مسجد منہدم ہو گئی، اسی طرح ہندوستانی سیاست اور سماج میں بابری مسجد میں عقیدہ رکھنے والا طبقہ بھی تقریباً ٹوٹ گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔