ڈاکٹر اطہر مسعود خاں: اشاریہ سازی کا ماہر

اطہر مسعود افسانہ نگار، مضمون نگار، تبصرہ نگار، انشائیہ نویس، بچوں کے ادیب، ترجمہ نگار، ناقد و محقق اور اشاریہ ساز کے طور پر اردو دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ڈاکٹر اطہر مسعود خاں / تصویر جمال عباس صدیقی</p></div>

ڈاکٹر اطہر مسعود خاں / تصویر جمال عباس صدیقی

user

جمال عباس فہمی

جس طرح ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی اسی طرح ادب تخلیق کرنے والوں کی بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ کچھ ادیب وہ ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مالی منفعت، عزت و شہرت کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں دوسری طرف ادیبوں اور قلمکاروں کا وہ طبقہ ہے جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اردو کی بقا و آبیاری، اسکی ترویج و فروغ اور اردو تحقیق کاروں کی مدد و معاونت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس طبقے کے قلمکاروں میں ڈاکٹر اطہر مسعود خاں کا نام بہت نمایاں ہے۔ اطہر مسعود افسانہ نگار، مضمون نگار، تبصرہ نگار، انشائیہ نویس، بچوں کے ادیب، ترجمہ نگار، ناقد و محقق اور اشاریہ ساز کے طور پر اردو دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ افسانہ نگاری، مضمون نگاری، انشائیہ نویسی اور ادب اطفال کی تخلیق سے زیادہ اطہر مسعود کی توجہ کا مرکز اشاریہ سازی ہے۔ وہ25 برسوں سے اشاریہ سازی میں مصروف ہیں۔ وہ ایک ماہر اشاریہ ساز کے طور پر اردو ریسرچ اسکالروں کی محبوب شخصیت بن چکے ہیں۔

اطہر مسعود خاں کی اردو ادب اور اردو ریسرچ اسکالروں کے تئیں خدمات کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر تعلیمی اور ادبی سفر کا سرسری طور سے جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

اطہر مسعود خاں 28 جون1961 کو رامپور میں ایک علمی اور ادبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ والد محمد غوث خاں اعلی تعلیم یافتہ اور ادبی ذوق کے مالک تھے ۔وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ تعلیم کے لئے انکے ذوق و شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساٹھ برس کی عمر میں انہوں نے علی گڑھ سے ایم اے کیا تھا۔ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے تھے۔ اسی لئے اپنا آبائی مکان ہونے کے باوجود انہوں نے قلعہ معلیٰ میں کرایہ پر مکان لیا کیونکہ آبائی مکان والے محلہ کا ماحول تعلیمی نہیں تھا لیکن قلعہ معلیٰ کا ماحول تعلیمی اور ادبی تھا۔ رضا لائبریری بھی قریب ہی واقع تھی۔ اطہر مسعود کے خاندان میں کئی شعرا گزرے ہیں۔ ان کے خالہ زاد اور ماموں زاد بھائی عرفان دانش شاعر تھے۔ اطہر مسعود کے ایک اور ماموں زاد بھائی آل احمد خاں سرور بھی شاعر ہیں۔


اطہر مسعود کی ابتدائی تعلیم رامپور میں ہی ہوئی۔ انہوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ انہوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی سے ہی 2004 میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع 'ماہنامہ نیا دور(لکھنؤ) کا اشاریہ' تھا۔1664 صفحات پر مشتمل اس اشاریہ میں اپریل 1955 سے لیکر دسمبر 2001 تک کے 'نیا دور' کے شماروں کے اندراجات شامل ہیں۔ اردو دنیا میں اطہر مسعود کی قدر و منزلت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکی نثر نگاری کے موضوع پر لاہور یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر جویریہ امجد نے ایم فل کیا ہے۔ انکی ایک کہانی بہار میں درجہ 7 کے نصاب میں شامل ہے۔

انکا پسندیدہ مشغلہ مطالعہ ہے۔ اطہر مسعود کو ادب تخلیق کرنے کا شوق بچپن سے ہی رہا ہے۔ انکی پہلی کہانی 'فرض اور مامتا' تھی جو رامپور سے شائع ہونے والے ماہنامہ 'نور' میں 1975 میں شائع ہوئی تھی۔ اشاریہ سازی کے بعد جو انکی اہم قلمی نگارشات ہیں وہ بچوں کے ادب ، افسانہ نگاری اور تنقید و تحقیق کے حوالے سے ہیں۔ انکے ذریعے بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کے پانچ مجموعے 'کھلتی کلیاں'، 'جھوٹ کے پیر'، 'سنہری فیصلہ'، 'موم کا دل' اور 'غریب شہزادی' اب تک منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ انکے ہاتھوں لکھی بچوں کی کہانیوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کی کہانیوں کے تقریباً ہر مجموعے کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ بچوں کے لئے تحریر انکی کہانیوں میں معلومات کی فراہمی سے زیادہ اخلاق سازی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔

'پاکیزہ سفر کا مسافر' کہانی کا یہ اقتباس پڑھئے، ’’ایک دن دو دن اور پھر تین دن گزر کئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ کبھی سوچتا تھا اسے جانا چاہئے کبھی ان لوگوں کی خراب حالت دیکھ کر اس کا دل بھر آتا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا اور کچھ روز کے لئے وہیں رک گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی خدمت سے ان تینوں میں طاقت آ گئی۔ اس نے دودھ کے لئے ایک گائے خریدی اور انکا کھیت جوتنے کے لئے ایک گھوڑا بھی مول لے لیا۔ اگلی فصل تک کے لئے اناج بھی خرید کر رکھ دیا۔ ایک دن الیشا نے سنا عورت اپنے بیٹے سے کہ رہی تھی ،بیٹا یہ آدمی نہیں کوئی فرشتہ ہے جو ہمارے لئے آیا ہے۔ دنیا میں ایسے بھلے اور پاکیزہ دل لوگ زیادہ نہیں ہیں''۔ الیشا نے اپنی تعریف سن کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

اطہر مسعود نے مختصر افسانے اور افسانچے بھی لکھے ہیں انکے دو افسانوی مجموعے 'ٹھنڈا خون' اور 'دو گز زمین'شائع ہو چکے ہیں۔۔انکے افسانوں کے موضوعات سماجی و معاشی مسائل، بد عنوانی، قتل و غارتگری اور سماجی اور اخلاقی برائیاں ہیں۔۔ انکے افسانچے طنز کا عنصر لئے ہوئے ہیں۔'عقیدت کے پھول' افسانچہ ملاحظہ کیجئے۔


''بھئی اتنے سارے پھول آپ نے کپڑے میں کیوں باندھ رکھے ہیں؟۔

جی۔۔۔جی یہ پھولوں کی چادر ہے۔

پھولوں کی چادر؟

جی۔۔ پانچ آنے اوپر دس روپئے کی لی ہے۔

اوہ۔ لگتا ہے آپ بھی ہمارے مسلک پر آ ہی گئے۔

نہیں تو۔۔۔ ہاں یار وہ۔۔۔ کیا کہوں؟

ارے بھائی بے تکلف ہو کر کہ دو

ہاں ۔ وہ ایسا تھا کہ میں نے ایک منت مان لی تھی۔

منت۔؟۔ کیسی منت؟ ارے آپ اور منت؟

جی میں نے منت مانی تھی کہ گھر میں ٹی وی لگ گیا تو میاں کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاؤں گا۔

اردو دنیا میں اطہر مسعود کی حقیقی شناخت ایک ماہر اشاریہ ساز کی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی اہل اردو آباد ہیں وہاں تک انکی اشاریہ سازی کی شہرت ہے۔ اردو ریسرچ اسکالرز ان سے اپنے موضوع سے متعلق مواد و متن کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔ اطہر مسعود کے اس فن کے بارے میں قلمی کاوشوں کا ذکر کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اشاریہ سازی کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے۔ اور یہ کیوں ضروری ہے۔

علم و ادب کے تحقیقی کاموں کے لئے اشاریہ سازی بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اشاریہ کی مدد سے کسی ادیب، شاعر، موضوع، ادبی تخلیقات، ادبی کارنامے، نادر و نایاب تصاویر، مخطوطات کی فہرست، کتابوں کے نام، سن اشاعت وغیرہ کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ریسرچ اسکالر کسی ادبی رسالے کے حوالے سے کوئی تحقیقی کام انجام دینا چاہے تو اس کو تمام رسالے کسی ایک جگہ دستیاب نہیں ہو سکتے۔ رسالے کے کس شمارے میں کس شاعر کا کلام، کس افسانہ نگار کا افسانہ، یا کوئی انشائہ کس سن اور کس ماہ میں شائع ہوا۔ یہ پتہ لگانا ریسرچ اسکالر کے لئے ناممکنات میں ہے۔ لیکن کسی مخصوص رسالے کے اشاریہ سے ریسرچ اسکار ایک ہی جگہ یہ تمام معلومات حاصل کر کے مطلوبہ رسالے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اشاریہ کے بغیر تحقیقی کام ناممکن ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔ اطہر مسعود نے اشاریہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کام پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اشاریہ سازی میں جو تاریخی نوعیت کے کارنامے انجام دئے ہیں ان میں لکھنؤ سے شائع ہونے والے ادبی رسالے 'نیا دور' کا اشاریہ خاص مقام رکھتا ہے۔ اطہر مسعود نے اشاریہ سازی کا ایسا معیار قائم کر دیا ہے کہ جس کی مثال بر صغیر ہندو پاک میں کسی رسالے کے اشاریہ میں نہیں ملتی۔ اطہر مسعود نے 'نیا دور' کا اشاریہ دو پیٹرن اصناف وار اور منصف وار پر تیار کیا ہے۔


اشاریہ سازی کے حوالے سے اطہر مسعود کا دوسرا بڑا کارنامہ عرفان عباسی کے ذریعے مرتب ’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ کا اشاریہ ہے جسے انہوں نے 'اشعاریہ' کا نام دیا ہے۔ ’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ 32 جلدوں پر مشتمل ہے اس میں 1600 سے زیادہ شعرا کے نام، نمونہ کلام اور دیگر بنیادی معلومات درج ہیں۔ اگر کوئی ریسرچ اسکالر اتر پردیش کے کسی شاعر کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے تذکرہ کی تمام 32 جلدوں کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اطہر مسعود کے ذریعے تیار اشاریہ کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مطلوبہ شاعر کا ذکر کون سی جلد میں کون سے صفحے پر موجود ہے۔

اطہر مسعود نے میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال، اردو غزل، اردو افسانہ، منشی نول کشور سے متعلق مضامین، ماہنامہ 'رہنمائے تعلیم'، ماہنامہ 'شاعر' ممبئی، عصمت چغتائی پر مختلف رسائل و جرائد میں شائع مضامین، 'تذکرہ شاعرات اودھ'، 'تذکرہ نثر نگاران اردو'، 'رئیس رامپوری کے شعری مجموعات'، 'ناول و افسانوی مجموعات' اور بچوں کے ادب کی کتابوں اور تذکروں کے اشاریے بھی ترتیب دئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسرار احمد، ڈاکٹر حسن احمد نظامی اور ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کی حیات اور خدمات کے حوالے سے بھی کتابیں لکھی ہیں۔

اطہر مسعود کی اشاریہ سازی کے پیچھے خیر سگالی اور اردو ادب کی بے لوث خدمت کا جزبہ کار فرماں ہے۔ ان کے ترتیب کردہ اشاریے مستقبل کے اردو ریسرچ اسکالرز کے تحقیقی مقالوں میں بنیاد کے پتھر کا کام کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔