عاشورہ! کربلا کے میدان میں لازوال قربانی
وقت کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ رہبران دین و ملت کربلا میں شہادت حسین کے پیغام کو سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں
دسویں محرم اسلامی تاریخ ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی وہ تاریخ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔آج ایک بار پھر یہ تاریخ آئی ہے تو اپنے ساتھ یادوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی لائی ہے۔ 10 محرم کو کربلا کی تپتی زمین پر پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت امام حسین اور آپ کے ساتھیوں نے ایسی قربانی پیش کی جس نے یزید ہی نہیں بلکہ یزیدی افکار و نظریات کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ روز عاشور یا دسویں محرم کا واقعہ بظاہر ایک دن کا واقعہ ہے جس نے پوری تاریخ کو ہلا کر اور بدل کر رکھ دیا۔اس دن امام حسین پر یزید کی ظالم فوج، مظالم کی انتہا کر رہی تھی اور امام حسین کے ساتھیوں کو قتل کر رہی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنا یہ انجام بھی یقینی بناتی جا رہی تھی کہ وہ پوری تاریخ میں کبھی منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔
امام حسین نے اپنے بھائی عباس ،جوان بیٹے علی اکبر ،اپنے 6 مہینے کے بچے علی اصغر،اپنے بھانجوں عون و محمد ، اپنے بھتیجے قاسم کی قربانیاں پیش کیں یہاں تک کہ امام حسین نے آخر میں خود اپنی جان بھی اسلام پر نثار کردی۔ امام حسین جب شہید ہوئے تو آپ کی بہن حضرت زینب نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے پروردگار تو ہماری اس قربانی کو قبول کرلے۔ حضرت امام حسین اللہ کی اطاعت و بندگی سے سرشار ہو کر قربانیوں پر قربانیاں دیتے رہے اور اللہ تعالی ان کے ہر عمل کو زندہ و جاوید بناتا چلا گیا اور اسی لئے آج چودہ سو برس گذرنے کے بعد بھی امام حسین کی قربانیوں کو یاد کیا جا رہا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے یا حسین یا حسین کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ نواسہ رسول حضرت امام حسین اور آپ کے 72 جانثاروں کی احیائے اسلام کے لیے کربلا کے مقام پر دی گئی لازوال قربانی سے منسوب ہے۔ تاریخ انسانی میں روئے زمین پر ایسا کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہوا اور تا قیامت امام عالی مقام کے کرب و بلا کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی۔ سانحہ کربلا در حقیقت حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ تھا۔ وقت کا یزید ہر صورت امام حسین کو اپنی بیعت کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ امام حسین جن کی تربیت ان کے نانا آنحضرت کے زیر سایہ ہوئی، یزید کی چالاکیوں، چالبازیوں اور مکر و فریب سے پوری طرح آگاہ تھے ۔انہوں نے دین اسلام کی بقا، سر بلندی اور دوام کے لیے یزید کی مطلق العنانی کی بیعت کرنے کی بجائے حق و صداقت کا پرچم بلند کیا اور جرات و بہادری سے یزید کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون سے دین اسلام کو نئی زندگی، قوت اور سر بلندی عطا کی۔
نواسہ رسول نے باطل، جابر اور ظالم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کی جو لازوال مثال قائم کی وہ قیامت تک کے لیے تاریخ میں امر ہو گئی۔ فاطمۃ الزہرہ کے لعل نے اپنے لہو سے حق و باطل کے درمیان سچائی کی جو فیصلہ کن لکیر کھینچی اس نے یہ ثابت کر دیا کہ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ظالم، باطل، آمر اور جابر قوتوں کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 14 سو سال گزارنے کے بعد بھی واقعہ کربلا اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لوگوں کے قلب و ذہن میں ترو تازہ ہے اور امام اوران کے جانثاروں کی عزاداری کا سلسلہ جاری ہے۔وقت کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ رہبران دین و ملت کربلا میں شہادت حسین کے پیغام کو سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔
ماہ محرم ہر سال ہمیں نواسہ رسول حضرت امام حسین کی اس عظیم قر بانی کی یاد دلاتا ہے جو آپ ؑنے حق کی سر بلندی کی خاطر کر بلا کے میدان میں دی تھی۔ ظلم وجبر کے خلاف آپ کا قیام ساری انسانیت کےلیے مشعل راہ ہے، اسی لئے امام حسین علیہ اسلام کی یاد صرف مسلمان نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی مناتے ہیں۔امام کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔امام حسین نے خود بھی کربلا سے پہلے اور کربلا میں فرمایا کہ ان کی تحریک ایک نمونہ اور اسوہ ہے۔ یعنی ہر جگہ ایسی طاقت بر سر اقتدار ہو جو آج ہے ،تو ضرور ایسے افراد میدان میں آئیں گے جو آج سامنے آ رہے ہیں۔ امام حسین کے بعد والے ائمہ معصومین نے بھی کربلا کے واقعہ کو زندہ رکھا ہے۔
سانحہ کربلا انسانی اصولوں کی معراج کا اپنے اندر عظیم فلسفہ سمیٹے ہوئے ہے۔امام برحق نے دین اسلام کو بچانے کے لیے اپنے اقربا و جانثاران کی قربانی پیش کر کے عالم اسلام کو رہتی دنیا تک یہ درس دیا ہے کہ جب بھی دین اسلام پر حملہ ہو غیرت و حمیت اور عبودیت کا یہ تقاضا ہے کہ دین کے دفاع میں اپنا سب کچھ اگر قربان بھی کرنا پڑے تو اسے سعادت سمجھ کر کر دیا جانا چاہیے۔ دین اسلام کی سربلندی کے لیے دی گئی قربانی کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔ نواسہ رسول امام عالی مقام کی محبت امت کے ہر فرد پر قرض ہے اور باعث نجات ہے۔
امام حسین کی عظیم ہستی اور لازوال تحریک کے بارے میں انسان جتنا بھی سوچتا ہے، غور و فکر اور تحقیق و مطالعہ کا میدان اتنا ہی وسیع و عریض نظر آتا ہے۔ اس عظیم واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غوروفکر اور اس پر بات کرنی چاہئے۔ اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جاسکے کہ انسان امام حسین کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے ہزاروں درس حاصل کرسکتا ہے کہ جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا۔ اگر ہم امام حسین کے کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے سینکڑوں باب اور سینکڑوں عنوان نکل سکتے ہیں، جن میں سے ہر باب اور ہر عنوان ایک قوم ، یک تاریخ اور ایک ملک کے لئے، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔
آج طاغوتی و استعماری طاقتیں دین اسلام پر حملہ آور ہیں۔ثقافتی یلغار اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اسلامی قدروں کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔امت مسلمہ کو ایک دوسروں سے دست وگریباں کرنے کے لیے پروپیگنڈے کے ہتھیار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ وقت دانش و بصیرت کا ہے۔اسلام کے تمام مکاتب فکر باہمی جذبات کا احترام کریں۔علمی و تاریخی اختلافات پر الجھنے کی بجائے ٹھنڈے دماغ اور وسیع القلبی کے ساتھ حقائق کو جانچنے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ انتشارپیدا کرنے والے گروہ اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔