یوم عاشورا! ظالم پر مظلوم کی فتح

اگر امام حسین کی کوشش فقط حکومت کے لیے تھی تو جب آپ کو سامنے شکست نظر آ رہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی ساز و سامان کا بندوبست کیوں نہیں کیا؟

<div class="paragraphs"><p>یوم عاشورا / Getty Images</p></div>

یوم عاشورا / Getty Images

user

نواب علی اختر

ظلم انسانی فطرت سے سازگار نہیں۔ جب ضمیر مر جاتا ہے تو انسان ظلم کی بیساکھیوں کا سہارا لینا شروع کر دیتا ہے۔ ظلم فقط کسی کو ناحق مار دینے کا نام نہیں بلکہ چیونٹی کے منہ سے ایک دانہ چھین لینے کا نام بھی ظلم ہے اور حق بات کو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث نہ ماننا بھی ظلم ہے۔61 ہجری میں ماہ محرم کی 10ویں تاریخ کو سرزمین کربلا پر تاریخ بشریت کا ایک ایسا انوکھا واقعہ رونما ہوا جس نے مقتول کو قاتل پر، مظلوم کو ظالم پر، پیاسے کو سیراب پر، اسیر کو آزاد پر اور محکوم کو حاکم پر غلبہ عطا کر دیا۔ یہ واقعہ اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر صحرا کے وسط میں پیش آیا تھا اور حکام وقت کے منصوبے کے مطابق اسے وہیں پر دفن ہو جانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ دفن ہونے کے بجائے ہر روز زندہ اور روشن ہوتا جا رہا ہے۔

یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعداد و شمار اور غلبے کو فتح کا معیار سمجھا جاتا تھا جبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے، یہاں بظاہر مر جانے والا درحقیقت فاتح قرار پایا ہے۔ ارباب فکر کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کون سی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کر دیا اور تہی دست ہونے کے باوجود نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ کو سربلند بنا دیا۔ ہمارے سامنے تاریخ بشریت دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اور علم و دانش کا سلسلہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آ رہا ہے مگر تاریخ بشریت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّر نے اپنے علم و دانش سے امام حسین جیسا کام نہیں لیا۔


ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسینؑ کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسینؑ کی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیا امام نے جناب محمد بن حنفیہ کے نام وصیت نامے میں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسینؑ نے مکہ میں روز عرفہ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں؟ اگر امام کا قیام حکومت کے لیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگر امام کی کوشش فقط حکومت کے لیے تھی تو جب آپ کو سامنے شکست نظر آ رہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی ساز و سامان کا بندوبست کیوں نہیں کیا؟

جو انتقامی تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسینؑ کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ یہ دو شہزادوں یا دو خاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی۔ تو اس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔ چونکہ جس شخص کو ذرا سی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین محبوب رسول اور سردارِ جنت کا درجہ رکھتے ہیں، لہٰذا حضرت امام حسینؑ سے بغض اور لڑائی کسی شہزادے یا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں۔


جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسینؑ نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو اپنے تدبر اور بصیرت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ بلا شبہ کربلا کی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام نے تیار کیا۔ آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو حسن تدبر کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کر دیا وہ امام کا خلوص اور مدبرانہ حکمت عملی تھی کہ جس سے آپ نے اس تحریک کو جاوداں بنا دیا۔

آج اگر ہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارے درمیان دین کی خاطر فداکاری و جان نثاری سے گریز اور مدبرانہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔ مدبرانہ حکمت عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں، دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کے نظریہ حرّیت، جانثاری اور آپ کی حکمت عملی کے سائے میں یزیدانِ وقت کے خلاف متحد ہو کر اپنی جدوجہد کا آغاز کرے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی اور ہم آج بھی فاتح بن سکتے ہیں۔


امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم، وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے جینے کو موت سے تعبیر کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے لوگ اس کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ ہر فرد کے دل کی آوا ز ہے اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو مہاتما گاندھی نے کہا تھا، ”حسینی اصول پر عمل کر کے انسان نجات حاصل کر سکتا ہے۔“

تاریخ سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امام حسینؑ مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ دنیا کا ہر غیر متعصب انسان اور باشعور مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو امام کا معتقد اور محب ہے۔ پس فکر امام سے فائدہ اٹھانے اور عصر حاضر میں سیرت امام حسینؑ پر چلنے کا حق بھی تمام مسلمانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ عصر حاضر کی کربلا میں ہماری نجات کا روشن راستہ یہی ہے کہ ہم فرقوں، مسالک اور فقہوں سے بالاتر اور غیرجانبدار ہو کر تحریک کربلا پر تحقیق کریں، سنی سنائی باتوں پر چلنے اور لکیر کا فقیر بننے کے بجائے فکر امام حسینؑ کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پڑھیں اور دوسروں تک بھی آپ کا پیغام پہنچائیں۔ آپ کے بارے میں حضور اکرم ،ختم الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا مطالعہ کریں اور آج کی اس تنگ نظر، متعصب سرمایہ دارانہ ،کافرانہ دنیا میں ایک حسینی و اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔