ڈر کے آگے جیت نہیں، اشوک چوہان کے لیے ہار ہے، کیونکہ ابھی بی جے پی کی ’واشنگ مشین‘ میں آدرش گھوٹالہ کے داغ دھلے نہیں
خبر گرم ہے کہ اشوک چوہان کو راجیہ سبھا سیٹ مل سکتی ہے اور ان کے پاس سودے بازی کرنے کا کوئی موقع بھی نہیں ہے، آخر کار آدرش گھوٹالہ کی تلوار تو سر پر لٹک ہی رہی ہے۔
اسے اشوک چوہان کی مستقل بزدلی ہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کا ہاتھ تھامنے کا فیصلہ اتنی تاخیر سے لیا۔ اشوک چوہان سابق مرکزی وزیر شنکر راؤ چوہان کے بیٹے ہیں۔ شنکر راؤ چوہان ایسے لیڈر تھے جنھوں نے نوجوانی میں رضاکار تحریک کے دوران مراٹھواڑہ کی سڑکوں پر اتر کر جدوجہد کی تھی اور نظامی افواج سے لوہا لیا تھا۔ بعد میں انھوں نے اس علاقے کو مہاراشٹر میں شامل کرانے کے لیے بھی جنگ لڑی۔ لیکن اب صاف ہو گیا ہے کہ ان کے بیٹے میں ایسی کوئی قابلیت نہیں ہے۔
بعد کے دنوں میں شنکر راؤ چوہان نے شرد پوار سمیت مہاراشٹر کے طاقتور چینی کے جاگیرداروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور علاقے کے ان کسانوں کے مفادات کے لیے سینہ تانے کھڑے رہے جن سے ان کی آبپاشی کا پانی چھین کر گنا پیداوار کرنے والوں کو دیا جا رہا تھا۔ سبھی کو معلوم ہے کہ گنے کی زراعت میں بہت زیادہ پانی کا استعمال ہوتا ہے اور علاقے کا تقریباً سارا کا سارا پانی مغربی مہاراشٹر کے لیڈران کی چینی ملوں میں جا رہا تھا۔
مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے شنکر راؤ چوہان نے 40-60 کا فارمولہ نکالا تھا جس سے دیگر فصلوں کو پانی کی کمی نہ ہو، حالانکہ اس فیصلے کے لیے چینی مل مالکان ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ لیکن ان کے بیٹے، جو خود بھی وزیر اعلیٰ بنے، انھوں نے کبھی بھی اس قسم کی ہمت نہیں دکھائی اور وہ شرد پوار سے ہمیشہ ڈرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے کانگریس چھوڑنے کے بعد بھی وہ ان سے اس معاملے میں آنکھ نہیں ملا پائے۔ دوسرے مراٹھا لیڈر ولاس راؤ دیشمکھ کو بھی اشوک چوہان کبھی چیلنج نہیں دے پائے۔
ولاس راؤ دیشمکھ کی موت کے بعد اشوک چوہان غالباً آخری کانگریس لیڈر تھے جنھیں زمین سے جڑا ہوا مانا جا سکتا ہے، حالانکہ ان میں ولاس راؤ والی صلاحیت نہیں تھی۔ لیکن حالات کے سبب وہ پارٹی ہائی کمان کے نزدیک آ گئے، حالانکہ آدرش سوسائٹی گھوٹالے میں ان کا نام ترجیحی بنیاد پر سامنے آیا تھا۔ پھر بھی دہلی کی لیڈرشپ نے ان کا ساتھ دیا۔ لیکن اشوک چوہان کی یہ بزدلی اب کھل کر عام لوگوں کے سامنے آ گئی ہے جو ابھی تک صرف ان کے قریبی لوگوں کی ہی جانکاری میں تھی۔ ملک میں ای ڈی کے چھاپوں میں ابھی اتنی بھی تیزی نہیں آئی تھی لیکن اشوک چوہان بی جے پی حکومت کے ذریعہ جیل بھیجے جانے کے خوف میں مبتلا ہو چکے تھے۔
آدرش سوسائٹی گھوٹالہ ایسا گھوٹالہ تھا جس میں دو دیگر وزرائے اعلیٰ کے نام بھی ہیں، اور جنھوں نے اپنے دوستوں و حامیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ضابطوں میں ہیرا پھیری کی تھی۔ حالانکہ انھیں اس سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ دیشمکھ حکومت میں ریونیو وزیر کے طور پر اشوک چوہان نے آدرش سوسائٹی میں فائدہ اٹھایا تھا، جس کے بعد دیشمکھ نے ان کی تنقید بھی کی تھی کہ ’’اگر تمھیں جنوبی ممبئی میں ایک اپارٹمنٹ ہی چاہیے تھا تو بامبے کے کسی بھی بلڈر کو بول دیتے تو وہ پینٹ ہاؤس تحفہ میں دے دیتا۔ اس کے لیے فوج کے کوٹہ سے 650 اسکوائر فٹ کی جگہ کاٹنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے... ظفر آغا
اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ دیشمکھ، جن کی مدت کار میں آدرش پروجیکٹ شروع ہوا تھا اور سشیل کمار شندے جنھوں نے اسے آگے بڑھایا، دونوں ہی الزامات سے بچ گئے تھے، لیکن آدرش سوسائٹی میں ایک نہیں بلکہ 2-2 فلیٹ حاصل کرنے کا معاملہ اشوک چوہان کے منھ پر آ کر گرا جب وہ خود وزیر اعلیٰ بنے۔ تب سے ہی وہ نہ صرف سرکاری ایجنسیوں بلکہ دیویندر فڑنویس (19-2014) کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان سے بھی بے حد ڈرنے لگے تھے۔ ان پانچ سالوں کے دوران جب وہ کانگریس کے صدر تھے، تو چوہان نے کچھ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ تمام ایشوز کے باوجود وہ بی جے پی کے خلاف کوئی بیان دینے سے بھی بچتے رہے۔ یعنی کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ نتیجہ کار 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کو زبردست نقصان ہوا۔ وہ 48 میں سے صرف ایک ہی سیٹ جیت پائی، وہ بھی اشوک چوہان کی ناندیڑ سیٹ نہیں تھی بلکہ کچھ ہی دن پہلے شیوسینا سے آئے لیڈر نے جیت حاصل کی تھی۔ جبکہ کانگریس کے ساتھ اتحاد والی این سی پی نے بھی پانچ سیٹیں جیت لی تھیں۔
اشوک چوہان نے مہاراشٹر میں جس طرح سے کانگریس کی کشتی ڈبوئی تھی، اس کے سبب اسمبلی انتخاب میں بھی پارٹی کے ایک درجن سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی امید نہیں تھی، لیکن پھر بھی پارٹی نے 288 سیٹوں والی اسمبلی میں 42 سیٹیں حاصل کیں۔ اس کے پیچھے وجہ یہی تھی کہ کانگریس نے پارٹی کی قیادت بااثر لیڈر بالاصاحب تھوراٹ کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔ ان کے ساتھ پانچ کارگزار صدور نے بھی کام کیا تھا جنھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں پارٹی کے لیے خوب کام کیا تھا۔ پھر بھی اشوک چوہان کو مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں وزارتی عہدہ دیا گیا اور راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے دوران مہاراشٹر مرحلہ کا انچارج بھی بنایا گیا۔ اتنا ہی نہیں، ایم وی اے میں سیٹ شیئرنگ کے معاملے میں بھی انھیں بات چیت کرنے والے گروپ میں جگہ دی گئی۔ ایسا تب بھی کیا گیا جبکہ بھارت جوڑو یاترا کے وقت سے ہی ان کے پارٹی چھوڑنے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔
اشوک چوہان کے پارٹی چھوڑنے کے قیاس حالانکہ دس دن سے لگ رہے تھے۔ اب ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ 21 فروری کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی موجودگی میں بی جے پی میں شامل ہو جائیں گے۔ سودا یہ ہوا ہے کہ انھیں مہایوتی حکومت میں وزیر بنایا جائے گا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ دیویندر فڑنویس انھیں کابینہ میں شامل کرنے کے حق میں نہیں ہیں، اور کانگریس سے آنے والے لیڈروں کو زیادہ توجہ بھی نہیں دینا چاہتے۔
ایسے میں خبر گرم ہے کہ وہ فی الحال راجیہ سبھا سیٹ کے لیے راضی ہو گئے ہیں اور ان کے پاس سودے بازی کرنے کا کوئی موقع بھی نہیں ہے۔ آخر کار آدرش گھوٹالے کی تلوار تو سر پر لٹک ہی رہی ہے، اور ابھی تک بی جے پی کی واشنگ مشین سے ان کی صفائی بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔