کیا ڈاکٹرس صحت سے متعلق حقوق کے خلاف ہیں؟
راجستھان کی کانگریس حکومت حقوق صحت سے متعلق تاریخی قانون بنانے کی سمت قدم بڑھا رہی ہے، امید ہے کہ راجستھان کی اس بہترین پیش قدمی پر دوسری ریاستیں بھی عمل کریں گی۔
طبی سہولیات کو بنیادی حقوق بنانے کے تاریخی قانون کا نجی اسپتال اور ڈاکٹر نامناسب و غلط طریقے سے مخالفت کر رہے ہیں جبکہ انھیں خوش ہونا چاہیے تھا کہ آخر کار لوگوں کو ایسا حق ملا جسے آزادی کے 75 سال بعد بھی نہیں دیا جا رہا تھا۔
راجستھان میں ڈاکٹروں کی طرف سے یہ مخالفت تب عروج پر پہنچ گئی جب اسمبلی میں اس قسم کا بل آیا اور شروعاتی رخنات کے باوجود اسے پاس کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس بل کو گزشتہ اجلاس میں ہی پاس ہونا تھا لیکن اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اسمبلی کے رواں اجلاس میں اس پر ووٹنگ ہونی ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی زوردار مخالفت اس بل کی حمایت میں مضبوط سول سوسائٹی تحریک کے خلاف ہے جو حقوق کے طور پر راجستھان کے سبھی لوگوں کے لیے عوامی طبی مراکز میں سبھی قسم کی مفت صحت خدمات دستیاب کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
یہ بل برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) اور یوروپ میں دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسے ماڈلوں کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ 1945 سے 1951 تک انگلینڈ میں وزیر صحت رہے این ایچ ایس کے منصوبہ ساز نے کافی پہلے کہا تھا کہ ’’بیمار ہونا نہ تو ایسا آرام ہے جس کے لیے لوگوں کو پیسے دینے پڑیں، نہ ایسا جرم ہے جس کے لیے انھیں سزا دی جائے، بلکہ ایسی پریشانی ہے جس کا ازالہ پورے طبقہ کو مل جل کر کرنا چاہیے۔‘‘
سی آئی آئی کے ذریعہ منعقد ایشیائی طبی اجلاس میں پیش اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کم از کم 5 سے 6 کروڑ لوگ طبی اخراجات کی وجہ سے غریبی میں ڈوب جاتے ہیں۔ گزشتہ سال جاری جدید قومی طبی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پورے ہندوستان میں 19-2018 میں صحت پر اوقات سے باہر خرچ 2.88 لاکھ کروڑ رپوے تھا جو موجودہ طبی اخراجات کا 53.23 فیصد تھا، مطلب کنبوں نے حکومت سے زیادہ خرچ کیا۔
راجستھان ان سب کو ختم کرنے کی سمت میں کام کرنے والی پہلی ریاست ہوگی جو پورے ملک میں اسی طرح کی سہولت دینے کے صحیح مطالبہ کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔ لیکن ڈاکٹروں کی ریاستی فیڈریشن، خصوصاً وہ جو نجی ڈاکٹرس اور نجی اسپتالوں کی نمائندگی کرتے ہیں، نے اس کی پرزور مخالفت کی ہے۔ ان لوگوں نے ہیاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر بل کو واپس نہیں لیا گیا تو وہ ہڑتال پر چلے جائیں گے۔ ان لوگوں نے تین اہم مطالبات کیے ہیں جن میں سے کوئی بھی مریضوں کے لحاظ سے بل کو بہتر نہیں بناتا۔ بل میں ایک خاص التزام ہے: کسی بھی ایمرجنسی حالت میں سرکاری یا نجی اسپتال میں سبھی باشندوں کو بغیر نقد اور مفت علاج دستیاب کرائی جائے گی۔ یہ اہم ہے کیونکہ یہ یقینی بناتے ہوئے اس میں ہزاروں جانوں کو بچانے کا امکان ہے کہ ایسی حالت میں کسی بیمار کے قریبی ہیلتھ سنٹر پر وقت پر علاج کیا جا سکے گا، بھلے ہی اس کی ادائیگی کرنے کی صلاحیت ہو یا نہیں۔ اس لیے یہ بات زیادہ چکر میں ڈالنے والی ہے کہ آخر ڈاکٹر ایسے انتظام کے خلاف کیوں ہیں، جو زندگی بچانے والے ہیں۔
پرائیویٹ طبی خدمات فراہم کرنے والوں میں اندیشہ ہے کہ ایمرجنسی دیکھ بھال کی لاگت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بہت زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی معنوں میں اس خوف کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ کچھ ہی ایمرجنسی معاملے پرائیویٹ اسپتال میں جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سبھی ایمرجنسی معاملوں میں زیادہ خرچ ہو، یہ ضروری نہیں۔ مریض کو سرکاری اسپتال بھیجنے سے پہلے کئی ایمرجنسی حالات میں مریض کو اسپتال میں بھیجنے سے پہلے اسے مستحکم کرنے میں زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔ مثال کے لیے دوروں کے بیشتر مریضوں کو سنگین معاملوں میں بھی سستی دیکھ بھال کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسری، وزیر اعلیٰ حادثہ بیمہ منصوبہ نامی ریاستی حکومت کا ایک منصوبہ پہلے سے ہی موجود ہے جو ’پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) کی ریاستی شکل ’چرنجیوی یوجنا‘ کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ منصوبہ سبھی حادثات، متاثرین کو مفت ایمرجنسی دیکھ بھال کی سہولت دیتا ہے، بھلے ہی ان کی بیمہ کی حالت کچھ بھی ہو۔ حکومت کو اس کا دائرہ بڑھا کر سبھی طرح کی ایمرجنسی دیکھ بھال کو اس میں شامل کرنا چاہیے۔ لاگت کا کچھ حصہ ان اسپتالوں کے ذریعہ برداشت کیا جا سکتا ہے جنھوں نے اراضی سبسیڈی کی شکل میں حکومت سے فائدہ لے رکھا ہے اور جہاں ’چرنجیوی یوجنا‘ وغیرہ کے ذریعہ سے مریض پہنچ رہے ہوں۔
دوسرا مطالبہ ضلع اور ریاستی طبی اتھارٹیز میں ڈاکٹروں کے فیڈریشن کی نمائندگی سے متعلق ہے۔ یہ مناسب مطالبہ ہے۔ طبی خدمات فراہم کرنے والوں کی نمائندگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ نرسوں، اے این ایم اور آشا کو بھی شامل کیا جا سکے جو گاؤں میں پرائمری ہیلتھ سروس کی بڑی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ ساتھ ہی، جیسا کہ سول سوسائٹی گروپوں نے مطالبہ کیا ہے، نمائندگی میں سول سوسائٹی گروپوں، مریضوں کے گروپوں اور شہریوں کے گروپوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
تیسرا اہم مطالبہ اس التزام کو ہٹانے سے جڑا ہے جو ایکٹ کے تحت قائم شکایت کے ازالہ نظام کے سامنے زیر التوا کسی بھی معاملے میں سول عدالتوں میں اپیل کرنے پر روک لگاتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ایسی پابندی قانوناً غلط اور انصاف کے حقوق کے خلاف ہے۔ حکومت کو اسے ہٹانا چاہیے۔
راجستھان کی کانگریس حکومت حقوق صحت سے متعلق تاریخی قانون بنانے کی سمت قدم بڑھا رہی ہے۔ یہ سرکاری طبی نظام کو مضبوط کرنے اور یکساں طبی سہولیات یقینی بنانے میں اصلاح کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ فراہم کرے گا اور آنے والے وقت میں دوسری ریاستوں کو بھی اس تعلق سے قدم بڑھانا چاہیے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر پوتر موہن این جی او ’بیسک ہیلتھ کیئر سروسز‘ کے شریک بانی ہیں، اور جگدیش رتنانی صحافی ہیں، اور مضمون میں شامل نظریات ان کے ذاتی ہیں– دی بلین پریس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔