اربعین واک! عراقیوں کے جذبہ ایثار و قربانی کی انتہا

انسانیت اور انصاف پسندوں کے دلوں پر حضرت امام حسین کی حکومت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر سال کروڑوں لوگ اربعین میں شرکت کرتے ہیں اور نجف سے کربلا 80 کلو میٹر سے زائد کا پیدل سفر کرتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب اختر</p></div>

تصویر نواب اختر

user

نواب علی اختر

شہید اعظم حضرت امام حسین ابن علی ساتویں صدی عیسوی کے وہ انقلابی رہنما تھے جنہوں نے یزید کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا، صرف انکار ہی نہیں بلکہ شہزادی کونین بی بی فاطمہ اور امیر المومنین حضرت علی کے جگر کے ٹکڑے نے اپنے نانا رسول خدا کا دین بچانے کے لئے وہ قدم اٹھائے جو رہتی دنیا کے لئے ایک مثال بن گئے۔ آج 1400 سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی دنیا میں اگر کسی مظلوم کی یاد زندہ ہے تو وہ صرف اور صرف نواسہ رسول امام حسین کی ہے، ان کے خاندان کی اور ان کے عظیم الشان اصحاب کی ہے۔

یزید چاہتا تھا کہ امام حسین بیعت کر لیں اور رسول اللہ کی تعلیمات کو نظر انداز کر کے خاموشی سے عیش و آرام کی زندگی گزاریں مگر امام حسین کا وہ جملہ آج تک یزیدی سوچ پر ایک کرارا طمانچہ ہے کہ ’مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا‘۔ یزید اور اس کے بعد دیگر حکامِ وقت نے ہر ظلم کر کے دیکھ لیا، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی حسین کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کربلا کے میدان میں ہزاروں کے لشکر کا سامنا 72 سے تھا۔ صبح شروع ہونے والی جنگ عصر کے وقت ختم ہو گئی تھی۔ یزید کو خوش فہمی تھی کہ اس نے حسین کو شہید کر کے اپنی حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے راستہ ہموار کر لیا ہے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ نواسہ رسول نے ایک ایسی تاریخ رقم کر دی ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔

حسین ابن علی کو تو شہید کر دیا گیا لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا تھا کہ امام کے بیٹے امام زین العابدین بقید حیات رہے۔ امام زین العابدین اور امام حسین کی ہمشیرہ زینب بنت علی کے خطبات آج بھی تاریخ کی کتابوں میں گونج رہے ہیں۔ یہ وہ خطبات تھے جنہوں نے یزید کی ظالم حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑا اور ایسا جھنجھوڑا کہ 1400 سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ظالم، امام حسین کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ محبت ہر طرح کی محبت سے الگ ہے، اگر آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تو ’اربعین واک‘ کیجئے۔

اربعین واک کو عراقی’ مشی‘ کہتے ہیں۔ یہ اس واقعے کے 40 روز مکمل ہونے کی یاد ہے جب امام حسین، ان کے خاندان اور ساتھیوں کو کربلا میں یزیدی افواج نے شہید کیا تھا۔ یعنی 20 صفرالمظفر جو عرف عام میں چہلم شہیدان کربلا سے مشہور ہے۔ اس موقع پر سنی، شیعہ، عیسائی اور یہودی سمیت نہ جانے کون کون حضرت حسین سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے کربلا پہنچتے ہیں اور جگر گوشہ رسول امام حسین کے دربار میں حاضری دیتے ہیں اور تب معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت زندہ ہے، ابھی سچ اور جھوٹ میں فرق باقی ہے، ابھی حق اور باطل میں جنگ جاری ہے۔ خدا کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی ذرا دیر سے سمجھ میں آتی ہے مگر جب آتی ہے تو انسان دنگ رہ جاتا ہے اور شکر بجا لاتا ہے، بے ساختہ حمد باری تعالیٰ میں مشغول ہو جاتا ہے۔


جب کوئی خدا کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لیتا ہے تو خدا اس کو وہ مقام عطا کر دیتا ہے جو بادشاہ بھی نہیں سوچ سکتے۔ انسانیت اور انصاف پسندوں کے دلوں پر حضرت امام حسین کی حکومت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر سال کروڑوں لوگ اربعین میں شرکت کر کے زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ اربعین میں کتنے لوگ شامل تھے اس پر اکثر بحث ہوتی ہے، میرا کہنا ہے یہ ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کتنے پہنچے، کیسے پہنچے اور کہاں کہاں سے پہنچے، بلکہ یہ دیکھو کہ جب پہنچے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، پیروں پر چھالے تھے مگر انہیں اس کی تکلیف کا کوئی احساس نہ تھا۔ جو چل نہیں سکتا وہ وہیل چیئر پر پہنچا، نیز یہ کہ کربلائے معلی پہنچنے سے پہلے ہی آپ کی آنکھیں کھل چکی ہوتی ہیں اور دل رسول اکرم اور اہلبیت کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔

اربعین فدائین حسین کے لیے ایک اہم دن ہے۔ اگر تاریخی حوالوں کی بات کی جائے تو دنیا میں پہلا شخص جس نے کسی دوسرے شہر سے قبر امام حسین علیہ السلام کی جانب سفر کیا، صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ہیں، وہ چہلم سید الشہداء کے موقع پر مدینہ سے سفر کر کے کربلا تشریف لائے اور چند روز اس مقام پر قیام کیا، دوسرا قافلہ جو اس قبر کی زیارت کے لیے کربلا میں اترا وہ اسیران کوفہ و شام کا قافلہ ہے، جو رہائی کے بعد مدینہ جاتے ہوئے کربلا میں چند روز مقیم رہے۔ توابین بھی کوفہ سے کربلا آئے اور نہر فرات پر انھوں نے غسل شہادت کے بعد اپنی تحریک کا آغاز کیا، جس کا نعرہ یا لثارات الحسین تھا۔ زیارت امام حسین کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، ہر صاحب توفیق نے قبر حسین پر حاضری کے ذریعے امام عالی مقام کے مزار اقدس پر عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔

مسلمان تو ایک جانب غیر مسلم بھی اس زیارت پر حاضری کو اپنے لیے شرف گردانتے ہیں۔ برصغیر ہندو پاک سے سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک بھی کربلا اور دیگر عتبات عالیہ پر حاضر ہوئے اور یہ سلسلہ یقینا تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔ عراق میں زیارت کے اس پیدل سفر ‘ مشی ‘ کا اربعین کے موقع پر خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد مشی کے لیے آنے والے محبان اہل بیت کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہی ہو رہا ہے، دنیا میں انسانوں کے اجتماعات کا حساب و کتاب رکھنے والوں کے مطابق اربعین حسینی دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع ہے، جس میں حاضرین کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ مشی عموماً نجف سے کربلا کی جانب کی جاتی ہے، جو تقریباً 80 کلو میٹر سے کچھ زائد کا فاصلہ ہے۔ عزاداران امام حسین بلا تفریق مذہب و ملت یہ سفر پیدل طے کرتے ہیں۔

آج کل اس مقصد کے لیے ایک الگ سے راہ مختص ہے، جس کے ہر چپے پر موکب موجود ہیں جہاں ان عزاداران سید الشہداء کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ موکبوں کا یہ سلسلہ نجف سے کربلا تک ہی نہیں، عراق کے چپے چپے بالخصوص مقام ہائے زیارت کے گرد و نواح میں پھیلا ہوا ہے۔ عراق کے لوگ شاید پورا سال اربعین آنے کا انتظار کرتے ہیں، مقامی لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ زائرین کے ساتھ کیا کریں۔ اربعین پر صرف شیعہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ بے شمار سنی بھائی بھی امام حسین سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں کوئی تعصب نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ میڈیا بتاتا ہے کہ عراقی شیعہ سنی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ شاید حسین اس سب (شیعہ سنی) سے بالاتر ہیں اور جو محبت اور اخوت کربلا اور نجف میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ بے مثال ہے۔


ہر طرف موکب ہوتے ہیں یعنی آرام کرنے کی جگہ، جو عراقی عارضی طور پر زائرین کے لئے قائم کرتے ہیں۔ ان موکبوں میں آرام کرنے کے لئے بستر، تکیے اور کمبل بھی موجود ہوتے ہیں۔ لوگ پکڑ پکڑ کے آپ کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقریباً 3 دن کے پاپیادہ سفر ’مشی‘ کے دوران کھانے پینے پر ایک ریال بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کیونکہ کپڑے گندے ہو جائیں تو موکب میں دھل جاتے ہیں۔ فون چارج کرنا ہو تو چارجر دستیاب ہیں، انٹرنیٹ چاہیے ہو تو وائرلیس ہاٹ اسپاٹس قائم ہیں، طبیعت خراب ہو جائے تو ڈاکٹرز اور نرسیں موجود ہیں۔ یہ تمام چیزیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ عراق کی غریب عوام جو سالوں سے جنگ کے دلدل میں پھنسی ہے، سارا سال محنت کر کے پیسے بچا کے زائرین کی خدمت کرتے ہیں۔

اربعین کے موقع پر عراق اور اہل نجف میں مدینہ منوّرہ میں باندھے جانے والے عقد اخوت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ چہلم کے موقع پر کسی نجفی کا گھر اس کا شخصی گھر نہیں رہتا۔ کم و بیش ہر نجفی سال بھر اِن ایام کے انتظار میں رہتا ہے اور مولٰی علی مرتضیٰ اور مظلومِ کربلا کے زائرین کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتا رہتا ہے۔ لہذا چہلم کے ایام میں جب تک نجفیوں کے گھروں میں تل دھرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، ان کا دروازہ زائرین پر کھلا رہتا ہے اور جب سب مکان بھر جاتے ہیں تو نجف کے گلی کوچے اور سڑکیں مسکن بن جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ ایمانی اخوت اور ایثار و فداکاری عشق کی سلطنت کے باشندوں کی تیسری بڑی شناخت ہے۔ جس میں یہ علامت نہ پائی جاتی وہ حضرت امام حسین کی نگری کا باشندہ نہیں کہلا سکتا۔

اہل عراق کا خود کو اتنا گرانا کہ بندہ شرم محسوس کرنے لگے، سب کچھ اپنی جگہ اہم ہے، سب کچھ دید کے قابل ہے، سب کچھ قابل تقلید ہے، سب کچھ توصیف کے قابل ہے، سب کچھ بیان و نشر کے قابل ہے، مگر سب سے اہم وہ جذبہ ایثار ہے، جذبہ قربانی ہے، جذبہ تواضع ہے، جو اہل عراق میں خلوص کی انتہاوں کو چھوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس کا کوئی متبادل نہیں، یہ ہر ایک پر بھاری ہے، یہ ہر ایک خدمت سے بالا ترین ہے، یہ ہر ایک کام سے بلند ترین ہے، یہ وہ جذبہ ایثار ہے، جو زائرین امام پر سب کچھ قربان کرنے پر تیار کرتا ہے، یہ جذبہ کس نے دیا ہے، محبت امام حسین نے دیا ہے شاید، ابا عبد اللہ الحسین سے عشق کا نتیجہ ہے، اگر اس مشی اور اربعین میں شرکت کرنے والے غیر ملکی زائرین یہ جذبہ سیکھ کر جاتے ہیں تو وہ اپنے علاقوں، اپنے ممالک، اپنے معاشروں میں انقلاب حسین پیدا کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔