اربعین امام حسین: زائرین کے لئے عراقیوں کی مثالی مہمان نوازی
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین علیہ السلام سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے
نواب علی اختر
آج سے تقریباً 1400سال قبل سرزمین کربلا (عراق) جہاں واقعہ کربلا رونما ہوا تھا، 20 صفرکو اربعین حسینی کے موقع پردنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں اقوام عالم کے مختلف ممالک سے کروڑوں کی تعداد میں زائرین کربلا پہنچتے ہیں اورمرجع خلائق امام حسین علیہ السالم کے روضے کی زیارت کرتے ہیں۔ یہ زائرین عراق کے مختلف شہروں اور سرحدی قرب ونواحی علاقوں بالخصوص نجف سے کربلا تک جس کی مسافت 80 کلو میٹر ہے اور پاپیادہ زائرین تین سے چار دن میں یہ سفر طے کر لیتے ہیں۔ سابق ڈکٹیٹر صدام کے دورِاقتدار میں سفر اربعین پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔ 2003 میں صدام کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے سفر اربعین کا سلسلہ ایک نئے جذبے سے شروع ہوا اور تب سے ہر سال اس سفر کے لئے کربلا پہنچنے والے افراد کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اربعین امام کے لئے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا ایک بڑا حصہ خونخوار دہشت گرد گروہ داعش کے زیر اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کے سفر سے اجتناب برتنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
مقام عبرت یہ ہے کہ چہلم امام حسین ؑ کے موقع پرکربلا میں زائرین امام حسین ؑ کی خدمت کے لئے جس جذبہ کا میں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مشاہدہ کیا اور عینی شاہدین سے بھی سنا کہ نجف سے کربلا تک کی شا ہراہوں پرمختلف سن وسال کے بچے، نوجوان، خواتین اور بزرگ افراد زائرین کربلا کی خدمت کو اپنا افتخار سمجھتے ہیں اور کوئی ان میں پانی کی بوتلیں توکوئی خورمہ تو کوئی دودھ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرتا ہے توکوئی ٹیشو پیپر اورخلال لئے کھڑا ہوتا ہے تاکہ زائرامامؑ کو معمولی سی چیز کی بھی تکلیف نہ ہو، جبکہ بڑے بڑے ریسٹورنٹ زائرین کومفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ اس موقع پر اہل عراق زائرین کےلئے اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں آرام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک عراقی کے مطابق اس عمل میں بچوں کو خاص طور پر شریک کیا جاتا ہے تاکہ زائرین کی خدمت کا عمل نسل در نسل جاری رہے۔
مقامی لوگ زائر حسینؑ کے پیروں کی مالش کرنے میں بھی افتخار محسوس کرتے ہیں۔ وہ زائرین کربلا کی خاک آلود نعلین کی گرد کو صاف کرتے ہیں تو کہیں ان پر پالش کرتے نظرآتے ہیں اور اگر زائر نے ازراہ تکلف منع کردیا تو وہ غمگین ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس سعادت سے کیوں محروم کر رہے ہو۔ تم زائر حسین ؑ ہو تمہاری خدمت ہمارا شرف ہے۔ یہ حقیقت ہے جو جذبہ اس دن یہاں اہل عراق کے درمیان دیکھنے کو ملتا ہے وہ آپ کودنیا کے کسی خطّہ میں نظرنہیں آئے گا۔ یہاں کوئی نہیں پوچھتا تمہارا مسلک کیا ہے، تمہارا ملک کیا ہے۔ یہاں ہر زائر کو خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو، پلکوں پربٹھایا جاتا ہے۔ رسول اسلامﷺ کی تعلیمات کے مطابق اتحاد ویکجہتی کے مظاہر جو یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بے مثال ہے۔
ماہ صفر میں سوشل میڈیا ’اربعین حسینی‘ کے سلسلے میں پیدل چلتے عقیدتمندوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھر جاتا ہے جن میں ہر کوئی عراقیوں کے جذبہ مہمان نوازی کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ مقدس عراقی شہروں نجف اور کربلا کو ملانے والی شاہراہ پراربعین حسینی کا منظر انتہائی قابل دید ہوتا ہے۔ اس شاہراہ پر جا بجا پیدل سفرکر رہے کسی بھی عقیدتمند کو پیش آنے والی ہر ضرورت کا مفت انتظام ہوتا ہے۔مقامی زبان میں’مشی‘ کے نام سے معروف یہ عمل ہر برس لاکھوں افراد نواسہ رسولﷺ کے چہلم کے موقع پر نجف سے کربلا کا پیدل سفر کر کے سرانجام دیتے ہیں اور اس موقع پر غریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ جان کر خاصی حیرت ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ملک کے یہ باسی جو خود بمشکل گزارہ کرتے ہیں، انہیں دنوں کے لئے سال بھر پیسے بچاتے ہیں تاکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
سن 61 ہجری میں دس محرم کو پیش آنے والے واقعہ کربلا کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو اربعین امام حسین ؑ منایا جاتا ہے۔ عموما ً اس سفر کا آغاز نجف اشرف سے ہی ہوتا ہے اور اربعین کے لئے سفر کرنے والے زیادہ تر افراد نجف کے ہوائی اڈے پر ہی اترتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ غیر شادی شدہ خاتون کوعراقی ویزہ نہیں دیتے تاہم ’زیارت حسین‘ کے لئے آنے والے سے نہ تو کوئی سوال پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی تفتیش۔ ’زائر حسین‘ بتانے پرجانچ افسر پاسپورٹ پر دو ہفتے کا ویزہ لگاتے ہیں اور’مرحبا فی عراق‘ کہتے ہوئے خیرمقدم کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے اور وہ بھی زیادہ قیمت پر لیکن عراق کے بصرہ ایئرپورٹ پر زائرین کے لئے پانی کا مفت انتظام ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو اربعین کے موقعے پر سوائے جہاز کے ٹکٹ اور ویزے کے ہر چیز ہی مفت ہے۔
بصرہ سے نجف تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سارے راستے میں چیک پوسٹوں اور سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بہت رونق دکھائی دیتی ہے۔ کہیں لوگ سر پر سامان رکھے پیدل ہی نجف کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں، کوئی ضعیف کوسہارا دیتا تو کوئی معذور کو کندھے پربٹھائے پیدل چلتا نظرآتا ہے تو والدین اپنے بچے کو واکر میں بٹھائے رواں دواں ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بڑے بڑے تھال میں کھانے کی اشیا رکھے نظر آتے ہیں۔ ان سب کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ ان کا کھانا ضرور کھا کر جائیں۔ کئی مقامات پر طویل دسترخوان بچھے نظر آتے ہیں، اس سڑک کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان کہنا غلط نہ ہوگا۔عراقی نہ صرف اربعین کو بلکہ اس کے لئے آنے والوں کی خدمت کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور پورے پورے عراقی خاندان دن رات اس خدمت میں بخوشی مگن دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس اہم موقع پر پورا ملک شریک ہو۔ ہر برس چہلم امام حسین کے موقع پر نجف سے کربلا کا رخ کرنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اربعین کے موقع پر اس علاقے میں تین کروڑ سے زیادہ افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔
اس موقع پر کہیں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد صلیب اٹھائے روضہ امام حسین کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں سفید لباس میں ملبوس بوہرہ برادری کے افراد روضے میں داخل ہوتے دکھائی دیں گے۔ ہندوستانی، یورپی اور افریقی ممالک کے لوگ بھی اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے اپنی زبانوں میں کلمات پڑھتے اندر جاتے ہیں۔ نواسہ رسولﷺ کے روضے اور اردگرد کی گلیوں میں ہر افراد کی زبان پر ایک ہی ورد جاری رہتا ہے’لبیک یا حسین، لبیک یا حسین‘۔ 14 صدیاں گزر جانے کے باوجود دین اسلام کے لئے جان دینے والے افراد کی قربانی میں کیا طاقت ہے؟ اس کا اندازہ کربلا سے ہوتا ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد ان کا غم منانے اور ان کی قربانی کی یاد تازہ کرنے کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے اور عراقیوں کے خاندان در خاندان اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Oct 2019, 6:45 PM