اربعین! عظیم قربانی کی یاد منانے کا دن
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے
ہم خاتم النبین حضرت محمد مصطفی کے امتی اور دین اسلام پر چلنے والے مسلمان ہیں۔ مسلمان وہ جو اللہ پر پورا ایمان رکھ کر توحید کا اقرار کرتا ہے ،مسلمان وہ جو خاتم النبین کو آخری نبی مان کر رسالت کا اقرار کرتا ہے۔خاتم النبین حضرت محمد مصطفی پر ایمان لانے والے آپ کی آل کا نماز میں درود پڑھنے والے اہلیبیت علیہ السلام کی اہمیت اور درجات نہ سمجھیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے پیارے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی نے ہمیشہ پنجتن پاک علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنی آیات ہوں یا احادیث مبارکہ ،ہر جگہ یہ واضع کر دیا کہ اہل بیت علیہ السلام کا اسلام میں بلند مقام ہے۔مگر
افسوس کہ خاتم النبین محمد کی وفات کے بعد انکے اہل بیت کو امت نے اتنا ستایا کہ واقعہ کربلا اسکی مضبوط مثال ہے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کو بھرے خاندان ،اصحاب اورجانثاروں کے ہمراہ کربلا کے تپتے صحرا پر یزیدی فوج نے شہید کر دیا۔ شہزادی زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کا ’اربعین‘چہلم کیا اور وہی چہلم’اربعین‘ امام حسین علیہ السلام ہر سال اسلامی تاریخ 20 صفر کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔اربعین یوم عاشورہ کے40 دن بعد منایا جاتا ہے۔اسکا مقصد خاتم النبین محمد کے نواسے امام حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام کی شہادت کی یاد منانا ہے۔امام حسین علیہ السلام میدان کربلا میں اپنے رفقاء سمیت شہید ہوئے۔اربعین کے دن دنیا کے سب سے بڑے اجتماع کا انعقاد ہوتا ہے اور کروڑوں لوگ کربلا (عراق) میں زیارات اربعین پڑھنے اور سیدالشہداء کی یاد کا ماتم منانے جمع ہوتے ہیں۔
اربعین کا سلسلہ شروع کب ہوا؟ اگر اس روایت کے تاریخی حوالوں کی بات کی جائے تو پہلی مرتبہ کربلا میں پیش آئے واقعے کے 40 دن مکمل ہونے پر پیغمبر اسلام کے اصحاب میں سے ایک جابر بن عبداللہ الانصاری، اس مقام پر زیارت کے لیے پہنچے تھے اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔جابر بن عبداللہ انصاری ،امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔وہ عطیہ (یا عطاء) بن سعید کے ہمراہ 61 ھ کے واقعہ عاشورہ میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے40 دن بعد، یعنی پہلی اربعین کو کربلا آئے اور قبر حسین کی زیارت کی۔ زائرین اربعین کے دن کربلا شہر میں حسین بن علی اور ان کے بھائی حضرت عباس کے روضوں تک پہنچنے کے لیے متعدد راستوں سے طویل فاصلے طے کر کے پہنچتے ہیں۔
امام حسین اور حضرت عباس کے علاوہ عراق میں نجف، سامرہ اور کاظمیہ کے علاقوں میںائمہ اہل بیت کے نصف درجن سے زائدزیارت گاہیں واقع ہیں۔ کچھ سال پہلے تک زائرین کا کربلا پہنچنا بڑا مشکل تھا لیکن آج ایران اورعراق کی حکومتوں نے زائرین کے لیے سیکورٹی سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی ہیں۔ زائرین کو اس مقدس مقام تک لے کر جانے والے سب سے نمایاں راستوں میں سے ایک نجف سے کربلا جانے والی سڑک ہے۔ یہ سٹرک 85 کلومیٹر طویل ہے۔ زائرین کو فاصلے کا تعین کرنے میں مدد کے لیے، سڑک کے ساتھ ساتھ متعدد ایسے نشانات یا تختیاں موجود ہیں جو انھیں یہ بتاتی ہیں کہ مطلوبہ مقام تک کتنا فاصلہ رہ گیا ہے۔ 80 کلومیٹر طویل سٹرک پر یہ نشانات ہر 50 میٹر کے فاصلے پر نصب ہیں۔
اس فاصلے کوطئے کرنے کے لیے تقریباً تین دن مسلسل پیدل چلنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کو پیدل راستہ مکمل کرنا مشکل ہو وہ نقل و حمل کے دیگر ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔زائرین کے کچھ ایسے قافلے بھی ہیں جو چہلم سے چند ہفتے قبل ہی پیدل چلنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کربلا جانے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جو 600 کلومیٹر طویل ہے۔جنوبی عراق میں راس البیشا سے شروع ہو کر ملک کے وسط میں واقع کربلا تک پہنچتا ہے۔اس کے علاوہ زائرین راجدھانی بغداد، ہلہ، بصرہ اور کوفہ کے شہروں سے بھی کربلا پہنچنے کے لیے پیدل سفر کرتے ہیں۔اس موقع پرزائرین بتاتے ہیںکہ عجیب روحانی اورجذباتی ماحول ہوتا ہے، یہاں سب برابر ہیں۔ تمام قومیتوں، نسلوں اور سماجی طبقات کے لوگ سب برابر ہیں اور عقیدت اور احترام کا جذبہ سب میں ایک سا ہوتا ہے۔
نجف اور کربلا کے شہروں کے درمیان راستے کے ساتھ ہوسٹل یا رہائشگاہیں بھی موجود ہیں، جو زائرین کے استقبال کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہاں زائرین کو مفت کھانا اور رہائش فراہم کیا جاتا ہے۔اس موقع پر عراقی عوام اپنے گھر اربعین کے زائرین کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اس راستے پر ہر عمر کے لوگ اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیا لئے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ زائرین کو بطور ہدیہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔اس علاقے کے لوگ نہایت محبت اور احترام سے ان زائرین کی خدمت کرتے ہیں، وہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے زائرین کے سر پانی سے دھلواتے ہیں،اربعین کے لیے جانے والے شاید اس بات کا اندازہ لگا سکیں کیونکہ عراق کی اس سرزمین پر درجہ حرارت ان دنوں میں بعض اوقات چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔یہاں تک کہ مقامی لوگ زائرین کے جوتے چپل صاف کرنااپنے لئے فخرسمجھتے ہیں۔
اربعین میں جب میزبان کے پاس پہنچتے ہیں تو آپ کو اپنا شناختی کارڈ دکھانے یا کوئی بدیسی زبان بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس آپ اس سڑک پر چلتے جائیں اور خدمت، حفاظت اور آرام حاصل کرتے جائیں۔ زائرین کی خدمت کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو سال بھر اپنی کمائی سے پیسے بچا کر عارضی رہائش گاہیں جنھیں ’معکب‘ کہا جاتا ہے اور آرام گاہوں کا انتظام کرتے ہیں جہاں زائرین قیام کرتے ہیں اور اگر کسی کی اتنی ہمت اور استطاعت نہ ہو کہ وہ ہاسٹل بنائے تو وہ زائرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ یہ منظر پوری دنیا میں ہم اور کہاں دیکھتے ہیں؟ یہ ایک عجیب بات ہے جس کے بارے میں بات کرنا اور اس دوران اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہے۔
ہر سال عراق میں مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ ایران،ہندوستان، پاکستان، آذربائیجان اور دنیا بھر سے لاکھوں زائرین آتے ہیں۔عراقی وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس پیر (5 ستمبر) تک 35 لاکھ سے زائد زائرین عراق میں داخل ہو چکے تھے۔ صرف نجف میں واقع ہوائی اڈے کے ذریعے گذشتہ 16 دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زائرین کی آمد ہوئی ہے۔عراقی حکام کے مطابق گذشتہ سال زائرین کی تعداد دو کروڑ سے تجاوز کر گئی تھی، جن میں پچاس لاکھ غیر ملکی زائرین شامل تھے۔
کربلا دنیا کا وہ واحد مقدس شہر ہے جہاں کوئی تفریح کی غرض سے نہیں جاتا۔ یہاں آنے والے تقریباً سبھی افراد نواسہ رسول اور ان کے اہل خانہ کی عظیم قربانی کی یاد منانے آتے ہیں۔اربعین واک میں شیعہ ، سنی، کرد، یزیدی، عیسائی غرض ہر مذہب اور فرقے کے لوگ باہمی ہم آہنگی سے رواں دواں نظر آتے ہیں۔ 14 صدی قبل دین اسلام کے لیے جان دینے والے افراد کی قربانی کی یاد تازہ کرنے اور ان کا غم منانے کے لیے آج بھی دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔