اربعین! حق و باطل میں واضح لکیر

دنیا میں حسینی خیمہ گاہ برپا ہے جو لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا رہا ہے۔ اس خیمہ گاہ سے سماج میں اسلامی نظام کی ترویج، فسق و فجور اور ظلم و بربریت کے خلاف جنگ اور مستضعفین جہاں کی حمایت جاری ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب اختر</p></div>

تصویر نواب اختر

user

نواب علی اختر

سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے جانثاروں کے چہلم کے موقع پر عراق میں جاری اربعین ملین مارچ آج اپنے عروج کو پہنچ گیا اور دسیوں لاکھ زائرین اس وقت کربلائے معلی میں مولا حسین اور آپ کے باوفا بھائی علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر سے کربلا پہنچے لاکھوں عاشقان حسین میں ہندوستان سے بھی ہزاروں زائرین شامل ہیں جنہوں نے بتایا کہ آج کربلا شہر ملکی و غیر ملکی زائرین کی غیر معمولی اور ہوشربا تعداد سے چھلک اٹھا ہے۔ ایک طرف جہاں نجف اشرف سے لے کر کربلا تک عزاداری، سوگواری کا سماں ہے اور دسیوں لاکھ سیاہ لباس میں ملبوس زائرین امام ہمام کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب لاکھوں عراقی و غیر عراقی خادمین زائرین کی خدمت میں مصروف ہیں۔

آج اربعین کا سورج نمودار ہوتے ہی شمع حسینی کے پروانے تلاوت آیات ربانی اور ’لبیک یاحسین‘ کی صداؤں کے درمیان امام حسین اور اہل بیت (علیہم السلام) سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ پوری دنیا سے کروڑوں لوگ پیدل چل رہے ہیں اپنی آنکھوں کو آنسووں سے سجائے ہوئے، لبوں پر نوحے، چہروں پر غم کے آثار، تمازت آفتاب کی پرواہ نہ راستے کی مشکلات کی فکر، ایسا لگتا ہے کہ سورج سے کہہ چکے ہیں کہ جتنی سوزش تیری شعاعوں میں ہے اس سے زیادہ شدت ہمارے جذبوں میں ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ راستہ کی تمام مشکلات ان کی قدم بوسی میں مشغول ہو کر خادم حسین ہونے کا حق ادا کر رہی ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان مرد ہوں زن ان سبھی کے جذبوں کو سلام ہے۔ پیدل چل رہے لوگ اپنے اندر ایسا احساس لئے ہوئے ہیں جو صرف اور صرف معرفت امام حسین سے سرشار ہیں۔


مکتب اہل بیت کے پاس غدیر، عاشورا اور اربعین جیسی انسان ساز، محکم اور مضبوط آئیڈیالوجیز موجود ہیں۔ ان کے ذریعے ہم انسانی تخلیق کے اصل ہدف اور مقصد تک آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ انہی محکم خدائی نظریات کی وجہ سے مذہب اہل بیت کو دیگر تمام مکاتب فکر کی نسبت ممتاز اور منفرد مقام حاصل ہے نیز فکری طور پر مضبوط اور مدلل اعتقادات کا حامل ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اسلامی آئیڈیالوجی کا ناقابل شکست ہونا اس کی طاقت کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ہمیشہ اس مکتب کی اقلیت بھی باطل کی اکثریت پر غالب رہی ہے اور باطل اپنی تمام تر ناپاک سازشوں کے باوجود مغلوب اور شکست سے دوچار رہا ہے جبکہ حق اور اس کے پیروکار ہمیشہ تمام تر مشکلات کے باوجود فتح یاب اور سربلند رہے ہیں۔

یہ درس اس مکتب کے ماننے والوں کو عاشورا ہی سے ملا ہے جہاں مضبوط دینی اعتقاد اور اخلاص کے نتیجے میں کم افراد کا خون کئی ہزار کی تعداد پر مشتمل لشکر کی تلواروں پر غالب آیا ہے۔ شیر خدا حضرت علی کی بہادر بیٹی نے اپنے بھائی کے یتیموں کے ساتھ اسارت کی سختیوں اور اپنے عزیزوں کی ناقابل برداشت شہادت اور درد ناک مصائب کے باوجود قاتلان اہلبیت کی ظاہری فتح اور ان کی خوشی و شادمانی کو اپنے دشمن شکن خطبوں کے ذریعے پاوں تلے روند ڈالا اور یزید کو اس کے اپنے دربار میں ہی ذلیل و رسوا کر کے قیامت تک کے لئے یزیدیت کے منحوس چہرے کو انسانیت کے سامنے بے نقاب اور نمایاں کر دیا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں رہتی دنیا تک حسین علیہ السلام اور حسینیت زندگی کا استعارہ ہیں جبکہ یزید اور یزیدیت ذلت آمیز موت کا استعارہ ہیں۔ یوں حق و باطل میں واضح لکیر کھنچ گئی۔


واقعہ کربلا ایک ابدی تحریک ہے، جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر اسلام کی طویل تاریخ میں حق کے متلاشی افراد کے لیے ایک زندہ و جاوید درس گاہ ہے۔ اس کے وقوع سے لے کر اب تک ہر ایک نے اپنے اپنے حساب سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں۔ جس قدر لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے، اتنا ہی ان کے عزم میں اضافہ ہوتا گیا، ان کا وقار بڑھتا گیا اور ان کی شان و شوکت ہمہ گیر ہوتی چلی گئی۔ اس کی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے۔ یہ نہ صرف ہر سال گزرے ہوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پہلے سے زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔

شہید کا کردار ہمارے لیے در س ہے۔ لہذا ہم اربعین اس طرح منعقد کریں تاکہ شہادت و مظلومیت کے بارے میں عصر حاضر اور آنے والی نسلیں آگاہ ہو سکیں۔ شہید باعث درس اور وہ نمونہ عمل ہے جس کا خون تاریخ کے ہر دور میں جوش مارتا اور بہتا چلا جاتا ہے۔ کسی قوم کی مظلومیت صرف اس وقت ملتوں کے ستم کشیدہ زخمی پیکر کو مرہم لگا کر ٹھیک کر سکتی ہے جب اس کی مظلومیت فریاد بن جائے اور اس مظلومیت کی آواز دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹی بڑی طاقتوں نے شور و غل مچا رکھا ہے تا کہ ہماری آواز بلند نہ ہونے پائے۔ اسی وجہ سے وہ تیار ہیں کہ چاہے جتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جائے مگر دنیا یہ نہ سمجھ پائے کہ جنگ کیوں شروع کی گئی اور کس محرک کے تحت چھیڑی گئی؟


اس دور میں بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ چاہے جتنا سرمایہ لگ جائے مگر خون حسین اور شہادت عاشورا کی یاد ایک درس بن کر اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی ملتوں کے اذہان میں نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ابتدا میں نہیں سمجھ پائے کہ مسئلہ کتنا با عظمت ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھنے لگے۔ چہلم شہیدان کربلا سے ہمیں جو درس لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ جس طرح دشمنوں نے جنگ کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کیا تھا۔ وہ جنگ جو عوام کی عزت اور حیثیت اور ملک و اسلام کی حفاظت اور ان کے دفاع کی خاطر تھی۔ چونکہ امام حسین کی سیرت تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہے لہذا آپ کی سیرت کو دیکھ کر ہر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔