گمنام مجاہد آزادی: شہید احمد شاہ خان بدایونی... یومِ شہادت کے موقع پر
احمد شاہ خان انہوں نے انگریز حکام سے حیات مستعار کی بھیک مانگنے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور مادر ہند کی بقا و آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر دی
احمد شاہ خان دلیری ،بہادری اورجاں بازی جیسے اوصاف کے مجسمہ تھے، جن کی دانائی دیکھ کر خان بہادر خاں نے بدایوں کا نائب ناظم مقرر کیا، اگرچہ اس وقت غاصب انگریزی حکومت مغلیہ سلطنت کو تاریخ کا حصہ بنا چکی تھی، مگر احمد شاہ خان جیسے مرد مجاہد آخری سانس تک فرنگیوں سے مقابلہ پر کمر بستہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے انگریز حکام سے حیات مستعار کی بھیک مانگنے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور مادر ہند کی بقا و آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
بدایوں روہیل کھنڈ کا ایک اہم اور تاریخی شہر ہے۔ جسے سرزمین صوفی سنت بھی کہا جاتا ہے۔ 10 مئی 1857 کو میرٹھ چھاونی میں بجنے والے انقلابی طبل کی آواز 15 مئی 1857 کو بدایوں پہنچی۔ ہنگامہ آرائی تحصیل بلسی کے موضع بٹھہ گوشائی سے ہوئی۔ مجسٹریٹ ولیم ایڈورڈس نے کارندوں سے خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے فوراً بعد قرب و جوار کے اضلاع ایٹہ، مراد آباد، شاہجہاں پور اور بریلی وغیرہ سے فو جی امداد طلب کی۔ لیکن یکم جون 1857 کو انقلاب ِبریلی کے بعد شہر میں اندر ہی اندر سلگ رہی چنگاری شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔
اسی دوران بریلی سے کچھ انقلابی سپاہی بدایوں پہنچے جن کے ساتھ باغی بھی شامل ہو گئے۔ ناگلہ شرقی باغیوں کا بڑا مرکز بن گیا۔ جہاں کے لوگوں نے مرزا منصور بیگ رسالہ دار کی رہنمائی میں منصفی ا ور کوتوالی کو پھونک دیا۔ بسولی میں انقلابی عزیز خان کی قیادت میں تحصیل کا پیسہ لوٹا گیا۔ ان دنوں یہاں نیل کے بہت سے کارخانے تھے، جنہیں باغیوں نے تباہ کر دیے۔ حالات کا رخ بھانپ کر مجسٹریٹ ایڈورڈس نے بدایوں سے فرار ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ روہیل کھنڈ میں خان بہادر خاں نے مغل صوبہ دار کی حیثیت سے عنان سنبھالی۔ جنہوں نے 17 جون 1857 کو عبدالرحیم خاں کو ناظم اور شیخ فصاحت اللہ کو نائب ناظم کے عہدوں پر مامور کر کے بدایوں بھیجا، انہوں نے نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے انتظامیہ نئے سرے سے تشکیل دی۔ لیکن انگریزی خیرخواہ انقلابی انتظامیہ کی راہ میں مسلسل رخنہ ڈالتے رہے اور اپنے انگریز آقاؤں کی ہر ممکنہ اعانت کرتے رہے۔
قابل ذکر ہے کہ بدایوں میں پورے روہیل کھنڈ کے مقابلے سب سے زیادہ انگریزی مخبر تھے۔ چنانچہ خان بہادر خان نے ان کی نکلیل کسنے کے لیے 10 نومبر کو عبدالرحمن کو معزول کر کے ان کی جگہ مبارک شاہ اور احمد شاہ خان کو نائب مقرر کر کے بھیجا۔ جنرل نیاز محمد خان نے وطن دشمن عناصر کی سر تابی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سقوط روہیل کھنڈ کے بعد ضلع پر دوبارہ انگریزی عمل داری قائم ہو گئی۔ انتقام کی آگ میں جل کر انگریز حکام نے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر اپنا غصہ ا تارا۔ بڑے پیمانے پر دار و گیر کا آغاز ہوا۔ گرفتار ہونے والوں میں نائب ناظم احمد شاہ خان بھی شامل تھے، جنہیں کلکٹر کارمیکل کے حکم پر 5 اگست 1858 کو توپ سے اڑا دیا گیا۔ اگرچہ وقتی طور پر 1857 میں بھڑکنے والی پہلی ملک گیر تحریک آزادی کے شعلے سرد پڑ گئے لیکن انقلابیوں کی قربانیوں اور جاں نثاری کے سبب اہل وطن میں دبی چنگاری سلگتی رہی جو وقت کے پہیہ کے ساتھ شعلہ بن گئی، جس کی تپش سے برطانوی نشیمن خاکستر ہو گیا اور الحاصل انہیں 15 اگست 1947 کو مادر ہند سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔