خدارا مسلمانوں کے حال پر رحم کرو!
حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے خود اپنے معاشرہ میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
دیگر کئی بڑے شہروں کی طرح آج دہلی کے رام لیلا میدان میں مسلم خواتین جمع ہو رہی ہیں اور پتہ نہیں ان میں سے کتنی فیصد خواتین کو اس معاملے کی پوری حقیقت معلوم ہے بھی نہیں۔ جس کے خلاف وہ اپنا احتجاج درج کرانے کے لئے جمع ہو رہی ہیں۔ یہ بات تو شائد ہی معلوم ہو کہ وہ برسراقتدار حکمراں جماعت کےحق میں جمع ہو رہی ہیں یا ان کے خلاف جمع ہو رہی ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ ان کو بھیڑوں کی طرح آج رام لیلا میدان کی جانب ہانکا ضرور جا رہا ہے۔ ان بیچاری خواتین میں سے اکثریت ان خواتین کی ہو گی جن کو ویسے باہر جانے کے لئے اپنے شوہر، بھائی اور والد سے بڑی منت سماجت کرنی پڑتی ہوگی لیکن اب تو اسلام خطرے میں ہے اس لئے ان کا گھر سے باہر قدم نکالنا عین شریعت کے مطابق ہے اور لازمی ہے۔
چلیے بہت ہو گئی لن ترانی اب مدے کی بات کی جائے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں کچھ مسلم تنظیموں نے مسلم خواتین سے اپیل کی ہے کہ وہ ان جاری مظاہروں کی آخری کڑی میں رام لیلا میدان پہنچیں اور موجودہ حکومت کے طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت میں پرامن اور خاموش احتجاجی مظاہرہ کریں۔ بالکل درست، ایک ایک لفظ صحیح کیونکہ اگر شریعت میں مداخلت ہو رہی ہے تو اس کے خلاف کم از کم احتجا ج درج کرانا آ پ کا حق بھی ہے اور آپ کی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری بھی اور اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ آپ کا احتجاج پرامن اور خاموش رہے۔ لیکن اس کے ساتھ چند سوا ل اور بھی ہیں۔
جس وقت ہم ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے ہماری شریعت میں مداخلت کرنے کی ہمت کی ہے کیا ہمیں ان کے بھی خلاف احتجاج نہیں کرنا چاہیے جن کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے، کیا موجودہ حکومت اتنی حساس ہے کہ وہ آپ کے احتجاج سے مرعو ب ہو کر اپنے عزائم میں تبدیلی کر لے گی اور کیا ہم ان کی لڑائی لڑ رہے ہیں جو شریعت پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ وہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو فوقیت دیتے ہیں۔
پہلے سوال کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ جن کی وجہ سے ملت کو یہ دن دیکھنا پڑا اور ان کی بہن بیٹیوں کو سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر نا پڑ رہا ہے ان کے خلاف احتجاج نہیں بلکہ ان کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دینا چاہئے۔ یہ ایک سیدھا سا جواب ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں میں بیٹھے ذمہ داران نہ تو قوم کی ضرورت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی حکومت کی چالاکی کو سمجھتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ آج مسلم خواتین کو سڑک پر اتارنا ایسا ہی ہے جیسے سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنا۔
ان تمام احتجاج اور مظاہروں کا سیدھا اور بڑا فائدہ آر ایس ایس اور حکمراں جماعت کو ہو نا طے ہے۔ مسلم خواتین سڑکوں پر آئیں گی اور شام کو کچھ ٹی وی چینل اس پر ڈبیٹ کریں گے اور کچھ افراد جن کی پہچان مسلم ہونے کی ان کے نام، لباس یا ڈاڑھی سے ہو گی وہ ان چینلوں کے اینکرس کے ہاتھوں خود کو بھی ذلیل و رسوا کروائیں گے اور قوم کو بھی۔ آخر میں فیصلہ ہو گا کہ مسلمان اپنی خواتین پر زیادتی کرتے ہیں ان کو آزادی سے جینے کا حق نہیں دیتے۔ یعنی قوم رسوا اور حکمراں جماعت کو بڑا فائدہ، جس سے مسلم مخالف ذہن رکھنے والے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں گیں۔
اب پریس ریلیز کے ذریعہ کہا جا رہا ہے کہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ ختم اور اب قوم کے درمیان اصلاح معاشرہ کی مہم چلائی جائے گی۔ جناب یہ کام پہلے کرنا تھا، آپ کو پہلے خواب غفلت سے باہر آنا تھا اور اس نوبت کو نہیں آنے دینا چاہئے تھا لیکن آپ کو یا تو لاٹھی سے جگایا جا سکتا ہے یا پھر چند سکوں کی کھنک آ پکو جگانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
دوسرا سوال، کیا موجود ہ حکومت جس کے خلاف آپ احتجاج کر رہے ہیں وہ اتنی حساس ہے کہ وہ آپ کی بہن بیٹیوں کے سڑک پر اترنے سے مرعوب ہو جائے گی یا پگھل جائے گی اور آپ کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی کردے گی۔ جناب یہ بھی خود کو اور قوم کو دھوکہ دینا جیسا ہے۔ موجودہ حکومت کے مزاج اور عزائم سے اگر آپ واقف نہیں ہیں تو بہتر یہی ہو گا کہ آپ قیادت کرنے کا ڈھونگ بند کر دیں اور اس قوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ یہ قوم موجودہ حکومت کے عزائم کو آپ سے زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ ہاں اگر اس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ ہے تو مہر بانی کرکے اپنے کاروبار کو بدل لیں اور قوم کو بیچنا بند کریں۔ خدارا آپ فرقہ پرست ذہنوں کو تقویت نہ پہنچائیں۔
تیسرا سوال، کیا ہم ان کی لڑائی لڑ رہے ہیں جو شریعت پر یقین نہیں رکھتے اور جن کو یقین ہے کہ انسان کا بنایا ہوا قانون خدا کے بنائے ہوئے قانون سے زیادہ مؤثر اور سود مند ہے۔ پہلی بات تو شریعت کی تشریح پر کام نہیں ہوا اور معاشرہ میں اصلاح کی فکر نہیں کی گئی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خود عدالت میں طلاق ثلاثہ کو طلاق بدعت تسلیم کیا ہے، پھر اس کے لئے لڑے بھی اور یہ بھی کہے کہ ہم اصلاح کر رہے ہیں، یہ سب کیا ہے، کس کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اب ہم جن کے لئے لڑ رہے ہیں اس کے تعلق سے مجھے صلح حدیبیہ یاد آتی ہے جس صلح کی ایک اہم شرط یہ تھی کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے گا تو اس کو مسلمانوں کو واپس کرنا پڑے گا اور اگر کوئی مسلمان غیر مسلم ہو جائے گا تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ صلح کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے پیارے نبیؐ تھے۔ سبحان اللہ! کتنی دور اندیشی تھی۔ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے اور اس کے سینے میں اسلام اتر جائے تو اگر اس کو واپس بھی کر دیں گے تو وہ جہاں بھی رہے گا اسلام کے لئے ہی کام کرے گا اور اگر کوئی ایسا مسلمان جو غیر مسلم ہو جائے تو اس کا مطلب صاف تھا کہ اس کے دل میں اسلام نہیں اترا تھا اور وہ مسلمانوں کے لئے بیکار تھا اس لئے ایسے شخص کا جانا ہی بہتر تھا۔
جی جناب اگر کوئی مرد یا خاتون اپنے مسائل کے لئے اپنی شریعت میں حل تلاش کرنے کے بجائے انسان کے بنائے ہوئے قانون میں حل تلاش کرے گا تو اس نے پہلے ہی قدم پر خود کو اسلام سے علیحدہ کر لیا اور جس نے پہلے ہی قدم پر خود کو اسلام سے علیحدہ کر لیا اس کی لڑائی شریعت کے ٹھیکیدار کیوں لڑیں اور ان کے لئے وہ سڑکوں پر کیوں اتریں جو شریعت پر یقین نہیں رکھتے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کا نام جنید یا تبسم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے معاشرہ میں اصلاح اور شریعت کی صحیح تشریح تو علماء کو کرنی ہی پڑے گی اور یہ کام دوسری لاٹھی لگنے سے پہلے کرنا پڑے گا۔
ہو سکتا ہے میری سوچ سراسر غلط ہو لیکن ناچیز نے جو سوال اٹھائے ہیں ان پر غور ضرور کیجئے گا اور وقت رہتے اپنے معاشرہ کی اصلاح کیجئے گا اور خدا کے واسطے اپنے معاشرہ کو خود سدھاریں اور ایسی نوبت مت آنے دیں جس کے نتیجے میں آپ کو یا آپ کی بہن بیٹیوں کو سڑکوں پر اترنا پڑے اور آ پ کے اس عمل سے اسلام دشمن عناصر کو تقویت پہنچے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Apr 2018, 9:14 AM