مفتی عتیق الرحمن عثمانی مرحوم ملت بیضاء کی شمع تھے (الحاج احمد سعید ملیح آبادی کا مضمون)
مفتی صاحب نے اپنی پبلک زندگی کا آغاز کلکتہ سے کیا تھا اور زندگی بھر کلکتہ کو نہیں بھولے، غالبؔ کی طرح مفتی صاحب کو بھی کلکتہ تمام عمر عزیز رہا اور اس کی یاد ان کے دل میں باقی رہی
مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب اپنے دم پر ایک عہد تھے، وہ اپنی ذات سے خود ایک انجمن اور ادارہ تھے، دہلی میں ’’ندوۃ المصنفین‘‘ کے نام سے انھوں نے جو علمی ادارہ قائم کیا اس نے دین و ملّت کی زبردست خدمت انجام دیں۔ اس ادارے سے بہت سی عمدہ، مفید اور قیمتی کتابیں شائع کی گئیں۔ ’’ندوۃ المصنفین‘‘ صرف ایک اشاعتی ادارہ نہیں رہا، مفتی صاحب کی حیات میں یہ علم و فضل کا ایک مرکز بھی تھا، جہاں علما ء و فضلاء کی نشستیں اور مجلسیں جمتیں، مفتی صاحب مرحوم کا حلقہ اجناب بہت وسیع تھا، ادنیٰ سے اعلیٰ تک ان کے تعلقات یکساں گہرے اور مخلصانہ ہوتے تھے، مفتی صاحب سے ملنے ’’ندوۃ المصنفین‘‘ میں بڑے بڑے لوگ آیا کرتے اور مفتی صاحب بھی لوگوں سے ملنے جاتے، کِبرو تکلف چھو نہیں گیا تھا، سادہ زندگی، ہر کسی کے ساتھ خوش کلامی، مرنجان مریخ، نکتہ رس معاملہ فہم، دقیق نہج، شگفتہ مزاج، علوم دینیہ پر گہری نظر، نپی تلی رائے، ملکی اور قومی حالات سے پوری طرح باخبر، صرف دور کے تماشائی نہیں خود بھی سیاست کے بحر ذخّار کے شناور، اعلیٰ پائے کے خطیب، مجلسی گفتگو میں اپنے ملائم اور نکتہ رس انداز کلام سے چھا جانے والے اور دلوں کو موہ لینے والے، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
مفتی صاحب کے ساتھ میرا بھی نیاز مندانہ اور عزیز دارانہ تعلق تھا، مرحوم ہمیشہ شفقت کا برتائو رکھتے تھے، والد مرحوم مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی اور مفتی صاحب مرحوم کے بیچ گہرے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات تھے، بعض امور میں ہم رائے نہ ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار تھے اور باہمی احترام و اعتماد کا جذبہ رکھتے تھے 1949ء سے 1958ء تک مولانا ملیح آبادی، مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ساتھ دہلی میں رہے، ان دنوں ملیح آبادی صاحب انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے عربی مجلہ ’’ ثقافتہ الہند‘‘ کو ایڈٹ کرتے تھے اور آل انڈیا ریڈیو کے عربی یونٹ کو دیکھتے تھے، جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد مفتی عتیق الرحمن صاحب کے یہاں علماء و فضلاء کی محفل جمتی، کبھی کبھی دوپہر کا کھانا بھی وہیں ہوتا جس کا اہتمام قاضی سجاد حسین صاحب کرتے، عصر تک یہ مجلس رہتی پھر سب رخصت ہو جاتے۔
والد مرحوم ملیح آبادی کے تعلق سے میرے ساتھ مفتی صاحب کا بر تائو اسی بنا پر مربیانہ اور مشفقانہ تھا، دہلی جانا ہوتا تو مفتی صاحب کو سلام کرنے حاضری دینا ضروری تھا بارہا اصرار کرکے کھانا ساتھ کھلاتے، گھر بار کے احوال دریافت کرتے احباب اور واقف کاروں کی خیریت پوچھتے، ملکی اور قومی مسائل پر گفتگو فرماتے، یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ ہمارے درمیان خوردی اور بزرگی کا رشتہ ہے پوری توجہ سے بات سنتے بات کو اہمیت دیتے رائے مختلف ہوتی تو اس کا اظہار بڑے ہی نفیس اور سلجھے ہوئے انداز میں کرتے تاکہ خود اعتمادی کو ٹھیس نہ لگے، اپنے اوپر کسی تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتے، کسی بات سے درگزر کرنا ہوت تو ایک لمبی سی ’’جی ہاں‘‘ کہہ کر خاموش ہوجاتے، مخاطب میں کبھی ’’تم‘‘ کا لفظ استعمال نہ کیا، ہمیشہ آپ کہہ کر خطاب فرماتے (بزرگ اپنے چھوٹوں کو ادب اسی طرح سکھاتے تھے کہ پہلے خود ادب کرتے تھے) رخصت کرنے والا ان سے اٹھ کر دروازے تک پہنچانے آتے کیا شفقت تھی، کیا انکساری تھی، مرحوم کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی، جو ذہانت کی علامت تھی۔ اپنے دوست مولانا ملیح آبادی کو یاد کر کے ہمیشہ ہی ایک لمبی ٹھنڈی سانس ضرورلیتے، اس وقت ان کی آنکھوں کی چمک کچھ اور بڑھ جاتی ایسا لگتا کہ ساری محبت امڈکر آنکھوں میں اتر آئی ہے۔
مفتی عتیق الرحمن کا تعلق بنیادی طور پر جمعیۃ العلماء ہند سے تھا کیونکہ وہ دارالعلوم دیو بند سے تعلق رکھتے تھے، استقلال وطن کی خاطر جاں بازی انھیں اپنے خاندان اور بزرگان دین سے ملی تھی، جنگ آزادی کے وہ ایک نڈر سپاہی تھے، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن کے رفیق کار بلکہ دست راست تھے۔ 1947ء کے دور ابتلاء و آزمائش کے بعد گلی قاسم جان میں جمعیۃ العلماء ہند کا دفتر مظلوموں کے کیمپ میں تبدیل ہو چکا تھا جس میں مولانا حفظ الرحمن صبح سے رات گئے تک مسلسل کام کر تے لگاتار بولتے اور بگڑتے الجھتے رہتے تھے، اس وقت مفتی صاحب ان کی تقویت اور صلاح کاری کے لیے پاس موجود رہتے، اکابرین قوم و ملت سے مفتی صاحب کے گہرے تعلقات تھے، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، لال بہادر شاستری، ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر ذاکر حسین خاں،رفیع احمد قدوائی، شیخ محمد عبد اللہ، فخر الدین علی احمد، مسز اندرا گاندھی وغیرہ سے مفتی صاحب کے قریبی تعلقات تھے اور یہ حضرات ان کی عزت کرتے تھے اور ان کی رائے پر سنجیدگی سے دھیان دیتے تھے، ایک مرتبہ سرینگر میں شیخ محمد عبد اللہ کے ساتھ ملکی و ملی حالات پر میری تفصیلی گفتگو ہورہی تھی،بات چیت میں کوئی ایسا سوال آیا جس کا فوری جواب شیخ صاحب کی سمجھ میں نہیں آیا تو فرمایا دہلی جائوں گا تو مفتی صاحب سے مل کر بات کروں گا اور طے کروں گا۔
مفتی صاحب کی وفات پر اس وقت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے جو تعزیتی پیغام جاری کیا تھا اس میں یہی جذبات موجود تھے، علالت کے دوران بھی مسز گاندھی برابر مزاج پرسی کرتی رہیں اور آل انڈیا میڈیکل اینڈ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کچھ عرصہ رکھ کر ان کا علاج بھی کروایا، آخر 83 سال کی عمر میں قضانے اپناکام کیا،اتنی عمر آدمی کے جینے کے لیے بہت سمجھی جاتی ہے مگر کام کے آدمی کے لیے یہ عمر بھی لمبی نہیں اور اس کے اٹھنے سے کار جہاں میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔
مفتی صاحب مرحوم ملت بیضاء کی شمع تھے ان کے رخصت ہونے سے ایک روشن چراغ بھی گل ہوا، اندھیرا بڑھ گیا، ان کے دم قدم سے دنیائے علم و ادب میں جو رونق تھی وہ سونی پڑ گئی۔ ایک قیمتی متاع تھی جسے موت ساتھ لے گئی، ملت مسلمہ کا یہ ناقابل تلافی نقصان ہوا، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہورہی تھی تب ہی وہ نہ رہے۔ مسلم مجلس مشاورت کی صدر کی حیثیت سے مفتی صاحب نے اپنے بس بھر ملت کی خدمات کی، بعض وجوہ سے مسلم مجلس مشاورت کی کار کردگی کادائرہ وسیع اور موثر نہ ہو سکا، مفتی صاحب کو شدت سے اس کا احساس تھا انھیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں سے وہ ملت مسلمہ کی شیرازہ بندی کر سکیں، جمعیۃ علماء ہند میں گروہی سیاست کی وجہ سے اس کے دروازے ان پر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے تھے، کچھ عرصہ وہ جمعیۃ کے کارگزار صدر کی حیثیت سے کام کرتے رہے مگر یہ بند بست چل نہ سکا اور انھیں کنارے ہونا پڑا، جمعیۃ کی گروہی سیاست سے مفتی صاحب کو رنج تو بہت تھا مگر اس کا اظہار کبھی کھل کر نہیں کرتے تھے اور نہ کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات زبان سے نکالتے جو اس شخص اور مفتی صاحب کے اپنے مقام و مرتبہ کے خلاف ہو۔
ایک مرتبہ مسلم مجلس مشاورت کے بارے میں گفتگو چلی تو مفتی صاحب نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ وہ ایک ایسی تنظیم کے صدر ہیں جس کا کوئی وجود نہیں،مجلس مشاورت میں شریک ہر جماعت اس پلیٹ فارم کو صرف اپنی مقصد برابری کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس سے زیادہ سروکار نہیں رکھتی۔ ان دنوں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں بڑھی ہوئی تھیں اور جماعت نے مجلس مشاورت کے پلیٹ فارم اور اس کے مقتدر و محترم صدر کی ذات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ استحصال کیا، ایمر جنسی اٹھنے کے بعد جماعت اسلامی کے تعلقات آر ایس ایس اور آنند مارگ کے ساتھ گہرے ہوگئے تھے، اس کی وجہ سے مفتی صاحب کو ایک مستقل ذہنی کوفت تھی اور انھیں تکلیف اٹھانی پڑتی تھی،مفتی صاحب ایسے وفعدار آدمی تھے کہ اس تکلیف دہ صورت حال کو بھی ضبط و تحمل سے برداشت کرتے رہے وہ ان لوگوں میں نہیں تھے جو بات بات پر ترک تعلق کر کے الگ کھڑے ہوجاتے ہیں، مفتی صاحب آخر تک اصلاح حال کی کوشش کرتے رہے اور کامیاب ہوئے، جماعت اسلامی والوں کو اپنے غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ آر ایس ایس اور آنند مارگ کی کھلی دوستی سے تائب ہو کر ٹھنڈے پڑ گئے۔
مفتی صاحب نے اپنی پبلک زندگی کا آغاز کلکتہ سے کیا تھا اور زندگی بھر کلکتہ کو نہیں بھولے، غالبؔ کی طرح مفتی صاحب کو بھی کلکتہ تمام عمر عزیز رہا اور اس کی یاد ان کے دل میں باقی رہی۔ غالبؔ کو تو ایک بار کے سوا دوبارہ کلکتہ آنا نصیب نہ ہو، مفتی صاحب سال کے سال کلکتہ ضرور آتے، بیمار اور کمزور ہوتے تب بھی کلکتہ آجاتے اور یہاں آکر آرام و سکون محسوس کر تے، کولو ٹولہ میں حاجی مقبول احمد صاحب کے گھر اترتے اور وہاں مہمان کے بجائے اپنے گھر کی طرح سکون سے رہتے، احباب سے فرداًفرداً ملنے ان کے گھر یادفتر جاتے،مولانا حکیم محمد زماں صاحب حسینی کا مطب مستقل نشست گاہ بنتی، جن دنوں مفتی صاحب کلکتہ میں مقیم ہوتے تو حکیم صاحب مطب احباب اور عقیدت مندوں سے بھرا رہتا ایک اٹھتا تو چار آکر بیٹھ جاتے ہر قسم کی مجلسی گفتگو ہوتی، پرانی یادیں تازہ ہوتیں اور لوگوں کو مفتی صاحب سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا،یہ سلسلہ سال بہ سال جاری رہا اور اس وقت منقطع ہوا جب فالج کے عارضے سے معذور ہو کر انھیں دہلی میں صاحب فراش ہو جانا پڑا۔ ہم لوگ کہتے بھی کہ ’’مفتی صاحب اب اس عمر میں اور بیماری کی نقابت میں آپ اتنا لمبا سفر کر کے نہ آیا کریں، ’’فرماتے ‘‘ یہاں آکر ہی تو میں تازہ دم ہوتا ہوں،مفتی صاحب نہیں رہے مگر ان کی باتیں رہ گئیں ہیں جو کبھی ختم نہ ہوں گی، کچھ لوگ دنیا میں اپنے پیچھے اتنا کچھ چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کی یاد یں مٹائے نہیں مٹتیں،آنکھیں اب بھی انھیں ڈھونڈتی ہیں اور ان کی ضرورت اب بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ خاص کر ان دنوں میں جب ہوا زیادہ گرم ہو جاتی ہے،مفتی صاحب کی رفاقت اور قیادت بہت یاد آتی ہے دل اندر سے پکا راٹھتا ہے،کاش مفتی صاحب اس وقت ہوتے تو ان کے پاس چلتے، وہ آڑے وقت میں کام آتے،ملت کی کشتی آج بھی بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے، نا خدا نا رہا۔‘‘
(الحاج احمد سعید ملیح آبادی کا یہ مضمون ماہنامہ ’برہان‘ کے ’مفکر ملت نمبر‘ میں ’مفتی صاحب کی یادیں‘ عنوان سے شائع ہوا تھا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔