نتائج کے بعد سماج میں سانس لینے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے...سید خرم رضا

ملک میں اس قدر گھٹن تھی کہ کہیں سے ہوا کے لئے کوئی سراخ نظر نہیں آ تا تھا لیکن ان انتخابی نتائج نے نہ صرف وہ سراخ دکھایا ہے بلکہ سانس لینے کی امید بھی قائم کی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

تصویر بشکریہ ایکس

user

سید خرم رضا

انتخابات سے چند ماہ پہلے قومی آواز کو اس وقت زبردست دھکا لگا جب اس کے مدیر اعلیٰ ظفر آغا اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور اپنی صحافتی برادری خاص طور سے مجھ پر سے اپنے تجربات کا سایہ ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے۔ نہ جانے کس وجہ سے عام انتخابات کے نتائج کے بعد، کل سے وہ بہت یاد آ رہے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے ہندوستان کے مستقبل کو لے کر بہت پریشان تھے اور وہ اکثر اپنی پریشانی اور اس خدشہ کا اظہار کرتے تھے کہ کہیں ہمارا ملک پڑوسی ملک پاکستان کی راہ پر تو نہیں چل نکلا ہے؟ جو نتائج کل آئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے وہ نہ صرف خوش ہوتے بلک ان کا یہ خدشہ ہمیشہ کے لئے دور ہو جاتا کہ ملک پاکستان کی راہ پر چل نکلا ہے!

ظفر آغا ایک بہترین صحافی ہونے کے ناطے ہمیشہ حکومت کے خلاف کھڑے نظر آئے اور کیونکہ ان کے صحافتی دور میں زیادہ تر کانگریس ہی اقتدار میں رہی اس لئے وہ ہمیشہ کانگریس کے خلاف ہی نظر آئے لیکن وہ کبھی پریشان نہیں ہوئے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے وہ پریشان نظر آنے لگے تھے اور ان کی اس پریشانی کی وجہ مرکزی حکومت کی جانبدارانہ پالیسیاں تھیں۔ مرکز کا ملک کے اکثریتی طبقہ کی جانب جھکاؤ اور ملک کے اس طبقہ کا بھی مرکز اور اس کے قائد کی جانب اس قدر لگاؤ کہ ملک کا دوسرا طبقہ خود کو مین اسٹریم سے کٹا ہوا محسوس کرنے لگا تھا۔ حالات کے پیش نظر وہ اس حد تک فکر مند تھے کہ انہوں نے اس کے ٹھیک ہونے کی امید بھی کھو دی تھی لیکن وہ جب دنیا میں نہیں رہے تو یہ امید کی کرن ایک مرتبہ پھر نظر آئی ہے۔


ملک میں اس قدر گھٹن تھی کہ کہیں سے ہوا کے لئے کوئی سراخ نظر نہیں آ تا تھا لیکن ان انتخابی نتائج نے نہ صرف وہ سراخ دکھایا ہے بلکہ سانس لینے کی امید بھی قائم کی ہے۔ ہندوستانی عوام نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا کہ آخری فیصلہ کرنے والے وہ ہی ہیں اور اگر کسی چیز کی زیادتی ہو جاتی ہے تو وہ کس طرح اس کو ٹھیک کرتے ہیں اس کا انہیں بہت اچھی طرح علم ہے۔ نتائج نے ایک پارٹی اور اس کی تقلید کرنے والے افراد کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ یہ ملک پڑوسی ملک کی طرح مذہبی بنیاد پر آزاد نہیں ہوا بلکہ یہاں ہر طبقہ اور سماج کے ہر فرد کو عزت دی جاتی ہے۔

نتائج نے جہاں سانس لینے کے لئے سراخ دکھایا ہے وہیں اس نے اپنی ترجیحات کی جانب بھی رہنماؤں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر یہ پیغام دے دیا کہ ان کی ترجیحات میں آئین اور اس کے تحت لئے جانے والے فیصلے ہیں، ان کی ضرورت نوکری اور مہنگائی ہے، مذہبی بنیاد پر تفریق پیدا کرنا نہیں۔ انہوں نے نتائج کے ذریعہ یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ سب کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں اور سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔


رہنماؤں کو نتائج کے پیچھے پیغام کو سمجھنا ضروری ہے اور ان کو سماج کو تقسیم کرنے کے بجائے ملک کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ آنے والے دنوں میں گھٹن کے ماحول میں جو سراخ نظر آیا ہے اس کو ایک روشن دان میں تبدیل کریں تاکہ گھٹن ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور ملک ترقی کرے۔ سب رہنماؤں پر اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس گھٹن کو ختم کرنے اور سراخ کو روشندان میں تبدیل کرنے کے لئے حکم عملی تیار کریں۔ ظفر آغا جیسے محب وطن صحافیوں کو سچی خراج عقیدت یہی ہوگی کہ ہم اس ملک کو پڑوسی ملک کے راستے پر جانے سے روکیں اور سماج میں سانس لینے میں آ رہی دشواریوں کو ختم کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔