ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد سیبی کی ساکھ پر گہرے سوالات... سچیتا دلال

ہنڈن برگ کے تازہ انکشافات سیبی چیئرپرسن کی ذاتی ایمانداری پر سوال کھڑے کرتے ہیں، ان پر حقیقت حال واضح کیا جانا چاہیے تھا، لیکن لیپا پوتی کی جا رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سیبی</p></div>

سیبی

user

سچیتا دلال

فورنسک مالیاتی تحقیق میں مہارت رکھنے والی امریکی فرم ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی گروپ کے بارے میں انکشاف تقریباً 18 ماہ قبل کیا تھا، لیکن اس کے پہلے ہی اس گروپ کے شیئرس میں آئی حیرت انگیز تیزی کی جانچ پر ہندوستانی مارکیٹ ریگولیٹری ’سیکورٹی اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا‘ (سیبی) نے جیسا رخ اختیار کر رکھا تھا، وہ آزاد مبصرین کے لیے الجھانے والا تھا۔ یہ سب سیبی کے ایک دیگر سابق چیف کی مدت کار کی یاد دلاتا ہے۔ وہ محترم اب متعلقہ صنعتی گروپ سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن تب یہ مانا جاتا تھا کہ سیبی کی عدم خواہش خاص طور سے سیاسی مجبوریوں کے سبب تھی۔

موجودہ چیئرپرسن کی مدت کار میں سیبی نے اڈانی گروپ کے شیئرس کی قیمت میں ہوئے غیر معمولی اضافہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہنڈن برگ معاملہ کے بعد کی اپنی جانچ کو خاص طور سے شارٹ سیلنگ سرگرمیوں پر مرکوز رکھا۔ ایک نو وارد سرمایہ کار بھی سمجھ سکتا ہے کہ شارٹ سیلنگ کے مواقع تبھی آتے ہیں جب شیئرس کی قیمتیں کسی کمپنی کے بنیادی اسباب (فنڈامنٹلس) یا مستقبل کے امکانات سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ 10 اگست کو ہنڈن برگ ریسرچ کے ذریعہ جاری کردہ دھماکہ خیز نئے ’وہسل بلووَر‘ دستاویزات نے اس معاملے کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے اور اس نے سیبی کے لیے ساکھ کا بڑا بحران پیدا کر دیا ہے۔ ہنڈن برگ نے حقائق اور دستاویزات کے ساتھ سیبی چیئرپرسن مادھبی پوری بُچ کی ذاتی ایمانداری اور ان کے ’انکشافات‘ پر سوال کھڑے کیے ہیں۔


ہندوستان کا سرمایہ بازار دنیا کے سرکردہ 5 بازاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہندوستانی معیشت کے لیے وسائل حاصل کرنے والا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے ریگولیٹری نظام کی غیر جانبداری کے تئیں بھروسہ کو بحال کرنا آج سب سے اہم ہے۔ اس کی جگہ جو کچھ بھی ہم دیکھ پا رہے ہیں، وہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ اس طرح کے حالات میں کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ ہنڈن برگ کے سنسنی خیز الزامات جاری کرنے کے بعد 36 گھنٹے تک سیبی کی کارگزار پر نظر رکھنے والی حکومت اور وزارت مالیات نے خاموشی اختیار کر رکھی۔ اس کی جگہ ہم نے الزامات کے گھیرے میں آئے لوگوں کے بیانات کی ایک سیریز دیکھی جو جواب دینے کی جگہ سوال اٹھاتے ہوئے زیادہ نظر آتے ہیں۔

11 اگست کو دیر رات جاری سیبی کا رد عمل خاص طور پر مایوس کن ہے۔ یہ ان ایشوز کو مخاطب کرنے کا دعویٰ کرتی ہے جس کے لیے ’مناسب رد عمل‘ ضروری تھا۔ حالانکہ جب خود ریگولیٹری اور اس کی چیئرپرسن کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے جائیں تب ’مناسب رد عمل‘ گمنام نہیں ہو سکتا۔ یہ ان لوگوں کی طرف سے آنا چاہیے جو ریگولیٹری کی طرف سے بولنے کے مجاز ہوں اور اقتدار میں ہوں۔ یعنی بورڈ آف ڈائریکٹر یا پھر وزارت مالیات۔ کیا اس معاملے میں بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ ہوئی؟ پریس نوٹ میں جو بیان دیا گیا، اس کی ذمہ داری کس نے لی ہے؟


اڈانی معاملے میں سیبی نے جو بھی اقدام کیے، اسے دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بحران کی سنجیدگی کو نہ سمجھنے کی کلاسک مثال ہے۔ اڈانی کے خلاف ایک معاملے کو چھوڑ کر سبھی کی جانچ کر کے انھیں ڈبے میں بند کیا جا چکا ہے۔ سیبی بغیر کسی جانچ کے اپنی چیئرپرسن کا دفاع کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ بُچ نے ’ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے معاملوں میں خود کو الگ کر لیا تھا‘۔ یہ صاف نہیں کہ اڈانی جانچ کے معاملے میں انھوں نے ایسا کیا یا نہیں۔

اس درمیان برسراقتدار پارٹی نے ہنڈن برگ کے بھروسہ پر سوال اٹھانے اور سنگین تجزیہ یا تبصرہ کرنے کی کوشش کرنے والے کسی بھی شخص کو خاموش کرانے یا انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی باثر لوگوں کو تعینات کر دیا ہے۔ ویسے، اس پالیسی کے کارگر ثابت ہونے کا امکان نہیں۔ جب تک حکومت آگے آ کر ذمہ داری نہیں لیتی اور غیر جانبدارانہ جانچ کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کرتی، تب تک دباؤ بڑھت ہی رہے گا اور یہ ’انویسٹمنٹ ڈسٹینیشن‘ کی شکل میں ہندوستان کی ساکھ کو دھکا پہنچائے گا، اور اس سے سرمایہ کاروں کو بھی نقصان ہوگا۔ سیبی سمیت مختلف فریقین نے تمام طرح کی صفائی دی ہے، اس کے باوجود کئی اہم ایشوز پر آگے جانچ کی ضررت ہے۔


یہ جانی ہوئی بات ہے کہ بُچ اور ان کے شوہر نے ایک آفشور کمپنی (گلوبل ڈئنامک آپرچیونٹیز فنڈ لمیٹڈ) میں سرمایہ کاری کی تھی جو گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے اسی ’غیر واضح برموڈا/ماریشس فنڈ ڈھانچہ‘ سے جڑی ہوئی تھی اور جو سیبی کی جانچ کے دائرے میں تھی۔ اس معاملے میں بالکل صاف طریےق سے ساری باتیں سمانے رکھے جانے کی ضرورت ہے، خاص کر تب جب ’ریڈمپشن‘ کا عمل بہت عجیب تھا۔

یاد رکھیں، سیبی نے خود ریگولیٹری اداروں اور ان کے ملازمین کے ذریعہ انکشاف اور تعمیل (ڈسکلوزر اور کمپلائنس) کے لیے اعلیٰ پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔ ایک سربراہ جو بااثر لوگوں سے کہتا ہے کہ ’آپ جب بھی منھ کھولیں تو بھلے ایک ہی نام (شیئرس کا) لیں، آپ ٹیچر بننا چھوڑ کر صلاحکار بن جاتے ہیں‘، اسے خود اسی اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانچ جو سرخیوں میں چھائی رہی، جسے دنیا بھر میں رپورٹ کیا گیا اور جس میں سپریم کورٹ نے حیرت انگیز طریقے سے کمیٹی کی تقرری کی ہو، اس میں سیبی چیف کی طرف سے ڈسکلوزر اور خود کو الگ کر لینا ضروری اور متوقع تھا۔


اس کے علاوہ سیبی کے پاس پہلے سے ہی ایک مثال موجود ہے، جب سی بی بھاوے کو چیئرمین منتخب کیا گیا تھا، تب انھیں نیشنل سیکورٹیز ڈیپازٹری لمیٹڈ (این ایس ڈی ایل) میں سیبی کی جانچ سے الگ رکھا گیا تھا، بھلے اس میں انفرادی سرمایہ کاری شامل نہیں تھی۔ وزارت مالیات کے مشورہ سے اڈانی معاملے کی جانچ کے لیے غالباً تین کُل وقتی اراکین والی ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے تھی جو بورڈ کی نگرانی میں ہو۔ یہ تو نہیں ہی ہوا، بلکہ یہ بھی صاف ہے کہ بُچ نے جانچ کی قیادت کی۔ جانچ کے دوران ان کی گوتم اڈانی کے ساتھ دو میٹنگیں ہوئیں۔ اڈانی گروپ کے معاملے میں شیئر بازار سے منسلک اصولوں کی خلاف ورزی کو روک پانے میں ریگولیٹری ناکامی کی جانچ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعہ خاص طور سے تشکیل اسپیشل کمیٹی یا خود سپریم کورٹ کے سامنے بُچ کی جانچ سے خود کو الگ کرنے کی بات کبھی نہیں آئی۔

اس کے بعد اپریل 2024 میں میڈیا میں یہ بات لیک ہوتی ہے کہ اڈانی کے شیئرس میں سرمایہ کاری کرنے والے 12 آفشور فنڈز کا انکشاف نہیں ’سیٹلمنٹ‘ ہوگا اور جون 2024 میں سیبی مشتبہ حلقہ اختیار کے باوجود ہنڈن برگ کو ’وجہ بتاؤ نوٹس‘ بھیجتا ہے۔


ٹرائڈینٹ ٹرسٹ کمپنی کے ساتھ بُچ کا لین دین عجیب ہے۔ سب سے پہلے دھول بُچ کے اس خط کی بات جس میں ان کے جوائنٹ ’اکاؤنٹس کو صرف ان کے نام پر رجسٹر کرنے‘ کو کہا گیا ہے؛ پھر بھی اکاؤنٹ میں رجسٹرڈ ای میل مادھبی بُچ کا ہی رہتا ہے اور انھیں سرمایہ کاری کی تفصیلات ملتی رہتی ہیں۔

آفشور یونٹ کا ریڈمپشن:

شاید اس سے پتہ چلتا ہے کہ مادھبی بُچ نے 2018 میں دھول کی ہولڈنگ کے ریڈمپشن کے لیے اپنے ای میل سے گزارش کیوں بھیجی۔ آخر ای میل کیوں نہیں بدلا گیا؟ ہندوستان میں یہ تعمیل ضروریات کے خلاف ہوتی اور اس کے لیے سیبی کو سزا کی کارروائی کا اختیار ہوتا۔ اس سے اکاؤنٹس کے حقیقی مالک کے بارے میں بھی اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ سیبی کے ذمہ دار عہدہ پر بیٹھی مادھبی بُچ تعمیل کے ضوابط (کمپلائنس ریگولیشنز) سے اچھی طرح واقف ہوں گی، یہ تو امید کی جا سکتی ہے۔


اگورا کنسلٹنسی:

مادھبی بُچ اور ان کے شوہر نے اگورا نام کی دو الگ الگ کنسلٹنسی کمپنیوں میں اپنی شراکت داری کی تصدیق کی ہے۔ مادھبی کا کہنا ہے کہ انھوں نے مارچ 2022 میں اگورا پارٹنرس سنگاپور میں اپنی پوری حصہ داری اپنے شوہر کو منتقل کر دی۔ یہ سیبی چیئرپرسن بننے کے دو ہفتہ بعد اور ریگولیٹری کی شکل میں ان کی دوسری مدت کار کے بعد ہوا۔ وہ ہندوستان میں رجسٹرڈ اگورا ایڈوائزری پرائیویٹ لمیٹڈ میں 99 فیصد حصہ داری رکھتی ہیں۔ ایک عوامی بیان میں جوڑے نے کہا کہ 2017 میں سیبی کے ساتھ ان کے جڑنے کے فوراً بعد دونوں ’غیر فعال ہو گئیں‘، لیکن ہنڈن برگ نے دستاویز جاری کیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فعال ہے اور کمائی بھی کر رہی ہے۔

بُچ جوڑے کا یہ کہنا بھی تضاد ظاہر کرتا ہے کہ دھول بُچ نے یونی لیور سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کمپنیوں کے ذریعہ سے اپنی خود کی کنسلٹنسی پریکٹس شروع کی۔ اس سے نہ صرف اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگورا انڈیا غیر فعال نہیں ہے بلکہ یہ بھی صاف نہیں ہوتا ہے کہ ان کی کمپنی جن ہندوستانی صنعت سے جڑے سرکردہ گاہکوں کے ساتھ کاروبار کرتی ہے، وہ سیبی ریگولیٹ یونٹس ہیں یا نہیں۔ یہ جانکاری اس لیے اہم ہے کہ بھلے ہی کنسلٹنسی ان کے شوہر کے ذریعہ کی جا رہی ہو، فرم کی 99 فیصد مالک سیبی چیف ہی ہیں۔


ایف پی آئی ملکیت کا اظہار:

’360 وَن ویم لمیٹڈ‘ (قبل میں آئی آئی ایف ایل ویلتھ مینجمنٹ) نے مادھبی بُچ اور ان کے شوہر کی سرمایہ کاری سے متعلق تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس سے رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے ایک اہم سوال اٹھایا: اگر کوئی کمپنی اتنی جلدی یہ ریکارڈ دستیاب کرا سکتی ہے کہ ایف پی آئی (بیرون ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری) کا آخری فطری نفع حاصل کرنے والا شخص کون تھا، تو سیبی کی جانچ دیوار سے ٹکرا کر کیوں رہ گئی جیسا کہ سپریم کورٹ نے تذکرہ کیا ہے؟

بلیک اسٹون گروپ کے ساتھ دھول بُچ کے مشاورتی عمل پر ہنڈن برگ کے ذریعہ اٹھائے گئے مفادات کے تصادم (کنفلکٹ آف انٹریسٹ) والے سوال پر جائے بغیر بھی یہ الزام ریگولیٹری کے بھروسہ کو بحال کرنے کے لیے وضاحت کا مطالبہ کرتے ہیں۔


چھوٹی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سیاسی سرکس میں بدل جاتی ہے اور اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں آتا۔ سابق ریونیو سکریٹری ای اے ایس سرما نے وزیر مالیات کو لکھے اپنے خط میں ایک اچھا مشورہ دیا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (جس نے اڈانی کے معاملوں کو بند نہیں کیا ہے) جانچ کمیشن ایکٹ 1952 کے تحت جانچ کمیشن کی قیادت کرنے کے لیے عدلیہ کے ایک سینئر رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔ اس مشورہ کو جلد از جلد قبول کرنا سمجھداری ہوگی۔

ایک کمرشیل گروپ کا دفاع کرنے سے ہندوستان کے قومی مفاد پورے نہیں ہوتے۔ کئی لاکھ کروڑ کے مارکیٹ کیپٹلائزیشن اور مارکیٹ میں لگے لاتعداد عام لوگوں کے پیسے کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سیبی کی ساکھ برقرار رہے اور سبھی اسٹیک ہولڈرس پر لگائے گئے اصولوں اور تعمیل کے پیمانوں پر عمل نظر آئے۔

(سچیتا دلال مشہور بزنس جرنلسٹ اور مصنفہ ہیں، اور moneylife.in کی بانی ہیں جہاں یہ مضمون سب سے پہلے شائع ہوا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔