اسرائیل غلط فہمی میں مبتلا... نواب علی اختر
اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح مزاحمتی قیادت کو ختم کر کے اپنے وجود کا جواز بنا سکتا ہے یا خطے کی زمین پر مزید قبضہ کیا جا سکتا ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
’’اگر ہم مار کر ختم ہونے والوں میں ہوتے تو کربلا میں ہی ختم ہو گئے ہوتے۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو عظیم مجاہد، خطے میں مزاحمت کے علم بردار، بافضیلت عالم دین اور مدبّر سیاسی رہنما سید حسن نصراللہ کی تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ سید مقاومت، مجاہد با بصیرت، امید مظلومان، لوگوں کا سہارا، جس سے پوری ملت اسلامیہ کو ڈھارس تھی، دشمن جس کی آواز اور منصوبے سے ڈرتے تھے، جس کے وجود سے یہودیوں کے بدن لرزاں ہو جاتے تھے، آج اسی مجاہد اور فرزند رسول سید حسن نصراللہ راہ خدا میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ عظیم شہید حالیہ دہائیوں میں ایک ایسے بے مثال رہبر و قائد تھے جنہوں نے لبنان کی آزادی میں اسرائیلی قابض کے خلاف عظیم کامیابیاں حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نصراللہ نے دسیوں سال سے فلسطین کے ستم دیدہ لوگوں کے دفاع، ان کے غصب شدہ شہروں، دیہاتوں اور تباہ ہو چکے گھروں اور ان کے قتل ہو چکے عزیزوں کے لیے منصوبے بنائے تھے، پلاننگ کی تھی اور جہاد کیا تھا۔ اتنی زیادہ مجاہدت کے بعد شہادت کا فیض ان کا مسلمہ حق تھا۔ عالم اسلام نے ایک عظیم شخصیت کو، مزاحمتی محاذ نے ایک نمایاں علم بردار کو اور حزب اللہ نے ایک بے نظیر قائد کو کھو دیا ہے لیکن ان کے دسیوں سالہ جہاد اور تدبیر کی برکتیں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ انھوں نے لبنان میں جو بنیاد رکھی اور مزاحمت کے دیگر مراکز کو جو سمت عطا کی وہ نہ صرف یہ کہ ان کے جانے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ ان کے اور اس واقعے کے دیگر شہیدوں کے خون کی برکت سے اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔
حزب اللہ کے شہید قائد اسرائیل کی ظالمانہ اور غاصبانہ پالیسیوں کے خلاف بر سرپیکار تھے۔ اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح مزاحمتی قیادت کو ختم کرکے اپنے وجود کا جوازبناسکتا ہے یا خطے کی زمین پرمزید قبضہ کیا جاسکتا ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے، کیونکہ اس قسم کی بزدلانہ کارروائیوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ ماضی کی طرح اگر ایک قائد ختم ہوگا تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرے لوگ آجائیں گے۔ اصل مسئلہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی ہے اور یہ لڑائی مزاحمتی گروپ حصول مقصد تک جاری رکھیں گے۔ جب تک اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیاں ختم نہیں ہوں گی، اس وقت تک فلسطین کی غیور عوام اپنے وطن کی بازیابی اور خود مختاری کے لیے لڑتے رہیں گے۔
حسن نصراللہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط آواز تھے جنہوں نے حزب اللہ کے کمانڈر کے طور پر اس مزاحمتی تنظیم کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اپنا اہم مقام بنایا۔ وہ ایک ذی علم قائد تھے۔ انھیں ان کی علمی استعداد اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے طاقتور ترین شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے اسرائیل سے مقابلہ کے لیے ایرانی قیادت اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا۔ان کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ہی ہے کہ جس میں نیتن یاہو آج اس قدر بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے اپنے یہودی بھی اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ لبنان میں امریکی مخالفت کے باوجود اس خوف سے کہ علاقائی جنگ چھڑ سکتی ہے، نیتن یاہو نے لبنان پر بمباری کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
درحقیقت حزب اللہ کی آڑ میں نیتن یاہو ایسے حالات پیدا کرنے کی حکمت عملی پرکار بند ہے کہ لبنان بے بس ہوکر اسرائیل کے ساتھ نئے سرحدی معاہدے پر مجبور ہوجائے تاکہ سرحد پر اسرائیل اپنی منمانی کر سکے۔ یہ ایسے ماحول میں چل رہا ہے کہ نیتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں مطلوب کے درجے پر رکھا گیا ہے۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسرائیل کے پاس شطرنج کی بساط کو بنیادی طور پر دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ملا ہے۔ دوسری جانب جیسا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے، امریکی حکام نے نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل کا سفر کیا اور انھیں ایک حد سے بڑھتے ہوئے فیصلے کرنے سے روکا ہے، مگر انھی دنوں میں کچھ دن بعد اسرائیل نے ہزاروں لبنانیوں کے پیجرز اور واکی ٹاکیز کو دھماکے سے اڑا کر حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک پر حملہ کیا ہے۔
لبنان ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے اور طائف سمجھوتہ کے بعد سیاسی استحکام کا جو فارمولہ ہوا تھا اس کے تحت کچھ عہدیداروں اور وزارت کو خاص مکاتب فکر، مذاہب اور نسلوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، عیسائی اور دیگر کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد حساس اور بااثر عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ عسکری معاملہ میں حزب اللہ کو بالا دستی حاصل ہے۔ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 دن کی جنگ ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کو لبنان کی وادی بقا سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا نا پڑا تھا۔ اسرائیل جو کہ پڑوس کے تمام ملکوں پر اپنی عسکری بالا دستی بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے حاوی رہتا ہے، اس کو قدر شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے اثرات اسرائیلی فوج پر ابھی بھی نظر آتے ہیں۔
اسرائیل کو 17 سال پہلے وادی بقا سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، اس انخلا کی سالگرہ کے موقعے پر حزب اللہ ہر سال بڑی پریڈ کرتا ہے، اگرچہ یہ پریڈ غیر مسلح ہوتی ہے، مگر اس کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں جو لبنان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ دونوں فریق یا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے خطے کی موجودہ صورت حال متاثر ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کئی مسلم ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ایک غاصب طاقت بن گیا ہے جو نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم کر رہا ہے بلکہ پڑوس کے تمام ملکوں کی زمین پر قبضہ کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عمل میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل متحدہ حکمت عملی اپنا کر ایران کو کنارے کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر حالات بتاتے ہیں کہ لبنان کی طرف سے آنے والی مزاحمت اسرائیل کو بھاری پڑ سکتی ہے۔
اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی زیادتیاں وحشیانہ اور مہلک ہوتی جاتی ہیں اور اس کی خلاف ورزیوں سے نہ صرف فلسطینی آبادی متاثر ہوتی ہے، بلکہ استثنیٰ کا یہ نمونہ انصاف اور احتساب کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور دوسروں کو ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ بین الاقوامی قانون پر اعتماد بحال کرنے کے لیے طاقتور ممالک کو انسانی حقوق کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس کے لیے عالمی برادری کے ایک متحد محاذ کی ضرورت ہے۔ قوموں کو اپنے اعمال کے لیے ایک دوسرے کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے اور سیاسی وابستگیوں یا اتحادوں سے قطع نظر خلاف ورزیوں کے خلاف بولنا چاہیے۔ انصاف کے ساتھ حقیقی وابستگی کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو مستقل اور تعصب کے بغیر لاگو کیا جائے۔ فیصلہ کن کارروائی کے ذریعے ہی بین الاقوامی قانون کے نظریات کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔