بیتے دنوں کی بات: کبھی’ پھونکنی‘ بھی باورچی خانہ کی زینت ہوتی تھی
پھونکنی ویسے تو ایک سیدھے لوہے کا پائپ ہوا کرتا تھا جو عام طور پر ایک فٹ لمبی اور ایک انچ کی گولائی ہوا کرتی تھی۔ ایک فٹ لمبی اس لئے تاکہ آگ اور ہوا دینے والے شخص کے بیچ فاصلہ بنا رہے۔
عام محاورہ ہے ’روح پھونکنا‘ یعنی کسی کے اندر جان ڈالنا یا کسی چیز کو تازہ دم کرنا اور اس کے لئے حوصلہ افزا جملے اور کبھی کبھار کسی پیر فقیر کی دعاؤں کے تعلق سے بھی اس محاورے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’پھونکنا‘ یعنی کچھ مذہبی آئتوں کو پڑھ کر کسی کے چہرے یا جسم پر پھونک سے دم کرنا یا پھونکنا بر صغیر میں ایک عام رواج ہے اور اس رواج کے بارے میں اس خطے کے اکثر لوگوں کو علم ہے لیکن ایک اور چیز جس کا استعمال کبھی لازمی چیزوں میں شمار ہوتا تھا یا یوں کہئے باورچی خانہ کا وہ لازمی حصہ تھی اور وہ تھی ’پھونکنی‘۔
دراصل جب تک انگیٹھی، اسٹوؤ، گیس کے چولہے اور مائکروویو نے بلترتیب باورچی خانہ میں اپنی حکومت قائم نہیں کی تھی اس وقت تک عام گھروں میں مٹی کے چولہے کا ہی راج ہوا کرتا تھا۔ اس چولہے میں لکڑیوں کو جلاکر توے اور ہانڈی کو گرم کیا جاتا تھا۔ توے پر روٹیاں اور ہانڈی میں سبزی وغیرہ گرم کر کے بنائی جاتی تھیں۔ لکڑیوں کو شروع میں جلانے کے لئے اور جب بھی ان کی آنچ کو تیز کرنا ہو تو منہ سے ایک آلے کے ذریعہ ہوا دی جاتی تھی اور اس آلے کو ’پھونکنی‘ کہا جاتا تھا۔
پھونکنی ویسے تو ایک سیدھے لوہے کا پائپ ہوا کرتا تھا جو عام طور پر ایک فٹ لمبی اور ایک انچ کی گولائی ہوا کرتی تھی۔ ایک فٹ لمبی اس لئے تاکہ آگ اور ہوا دینے والے شخص کے بیچ فاصلہ بنا رہے کیونکہ آگ کے قریب سے ہوا دینا ممکن نہیں ہوتا تھا اور ایک انچ یا اس سے کم کی گولائی اس لئے رکھی جاتی تھی تاکہ منہ سے نکلنے والی پھونک صرف اس میں داخل ہو کر چولہے میں جل رہی لکڑیوں تک پہنچ جائے۔
بچوں کو پھونک مارنے میں خوب مزا آتا تھا کیونکہ ان کو اس میں طاقت کا احساس ہوتا تھا کہ ان کی پھونک سے لکڑی جل رہی ہے اور وہ لکڑی کو تیز جلانے کے لئے خوب تیز پھونک مارا کرتے تھے۔ گھر کی خاتون کو بھی تھوڑی راحت مل جاتی تھی کیونکہ ان کی جگہ بچے پھونک مارا کرتے تھے لیکن وہ اس راحت کے با وجود ناخوشی کا اظہار ہی کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ پھونکنی بچوں کے لیے کھلونا بھی بن جایا کرتی تھی۔ دراصل پھونکنی کو اگر منہ سے ملا کر اس میں پھونک ماری جائے تو بہت تیز آواز نکلتی ہے۔ اور بچوں کو اس طرح کی چیزوں سے خاص لگاؤ ہوتا ہی ہے، جب موقع ملا پھونکنی اٹھائی اور باجا بجا لیا!
بہر حال پھونکنی اب گزرے دنوں کی بات ہو گئی اور اب اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، کیونکہ چولہے کی حکمرانی اب ختم ہو گئی ہے اور ترقی کے ساتھ کھانا بنانے کے نئے آلات میدان میں آ گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ باورچی خانہ میں پھونکنی کے نہ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا یا یوں کہئے کہ یہ باورچی خانہ کی زینت ہوتی تھی۔ اکثر خاتون خانہ آواز لگاتی تھیں کہ چمٹا پھونکنی کہاں ہیں مانوں یہ سگی بہنیں ہوں۔ چمٹے کا تو خیر ابھی بھی استعمال ہو جاتا ہے لیکن پھونکنی اب بیتے دنوں کی بات ہو گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔