بیتے دنوں کی بات: اسکوٹر کا بھی اپنا زمانہ تھا
اسکوٹر ہونے کا مطلب صاف تھا کہ جس شخص کے پاس اسکوٹر ہے اس کی مالی حیثیت بھی اچھی ہے اور اس کا سماج میں بھی دبدبہ ہے۔ یہ بیتے دنوں کی بات ہے جب اسکوٹر ضرورت اور پہچان دونوں کا ذریعہ ہوا کرتا تھا
کیب اور اسکوٹی کے اس دور میں کون سمجھے گا کہ کبھی کسی کے پاس اسکوٹر ہونا کتنی بڑی بات ہوتی تھی۔ اسکوٹر ہونے کا مطلب صاف تھا کہ جس شخص کے پاس اسکوٹر ہے اس کی مالی حیثیت بھی اچھی ہے اور اس کا سماج میں بھی دبدبہ ہے۔
اس اسکوٹر کا اب جدید نام ہے اسکوٹی ہے اور اس کا استعمال صرف اپنے علاقوں میں چھوٹے موٹے کاموں کا کرنا باقی کے لئے تو اپنی کار اور کیب کا ہونا لازمی ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں جیسے صرف دو کاریں یعنی امبیسیڈر اور فی ایٹ ہوا کرتی تھیں ویسے ہی اسکوٹر بھی صرف تین ہی کمپنیوں کے ہوتے تھے جس میں دو اطالوی کمپنی کے تھے ویسپا اور لمبریٹا اور ایک ہندوستانی کمپنی بجاج کا اسکوٹر ہوا کرتا تھا۔
بجاج یعنی ’نئے بھارت کی نئی تصویر، بلند بھارت کی بلند تصویر، ہمارا بجاج‘ جو آٹو انڈسٹری میں دنیا میں تیسرا مقام رکھتا تھا اور ہندوستان میں دوسرا مقام رکھتا تھا ۔ ہندوستان کی سڑکوں پر 60 سالوں تک راج کرنے والا بجاج اپنی مثال آپ تھا۔ اطالوی کمپنی پیاگیو کا ویسپا اور انوسینٹ کمپنی کا لمبریٹا اسکوٹر ہندوستان میں خاندان کے نقل و حمل کا واحد ذریعہ تھا۔
ان اسکوٹروں کی تاریخ کے بارے میں تو گوگل سے سب معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اب بیتے دنوں کی بات لگتی ہے۔ کیا آج کے بچوں کو یقین آئے گا کہ اسکوٹڑ لینے کے لئے بکنگ ہوا کرتی تھی اور اکثر ہوا کرتا تھا کہ جس نے بکنگ کری ہوئی ہوتی تھی اس کی مالی حیثیت اسکوٹر خریدنے کی نہیں ہوتی تھی اور وہ نام آنے پر اپنی پرچی چند ہزار میں بیچ دیا کرتا تھا۔ آج تو اسکوٹی اور کار خریدنے کے لئے جہاں خریدار کے پاس بہت سے متبادل ہیں وہیں کمپنی اپنی اسکوٹی اور کار بیچنے کے لئے بہت سارے آفرس کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔
بہرحال اسی دور میں ایک بات اور سامنے آئی کہ لوگوں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں اسکوٹر دینے کو اعزاز کا درجہ دے دیا۔ جہاں والدین کے لئے جہیز میں اسکوٹر دینا فخر کی بات سمجھا جاتا تھا وہیں لڑکے اور لڑکیوں کے بیچ بھی اسکوٹر کا جہیز میں ملنا بہت فخر کی بات سمجھا جایا کرتا تھا۔
اسکوٹر کے بھی اپنے نخرے ہوا کرتے تھے۔ اسکوٹر کی بڑی خاطر ہوا کرتی تھی۔ صبح شام اس کی صفائی اور آئلنگ و گریسنگ کا خاص دھیان رکھنا اس کی خاطر میں شامل تھا۔ سینا چوڑا کرکے لوگ یہ کہتے تھے کہ ایک کک میں اسٹارٹ ہو جاتا ہے میرا سکوٹر یعنی اسکوٹر کو اسٹارٹ کرنے کے لئے عام طور ر کئی کک لگانی پڑتی تھیں۔
یہ نہیں معلوم دنیا کے دیگر ممالک میں اسکوٹر سے جڑی کیا کیا دشواریاں ہوتی تھیں اور ان کا حل کیسے نکالا جاتا تھا لیکن ہندوستان میں یہ بات بہت عام ہوتی تھی کہ تیل کی کمی کی صورت میں اسکوٹر کو اپنی طرف جھکایا جاتا تھا اور تیل زیادہ ہونے کی صورت میں جسے ’اوور‘ کہا جاتا تھا تو اسکوٹر کو دوسری طرف جھکایا جاتا تھا۔ اگر ان دونوں طریقوں کو اپنانے کے باوجود بھی اسکوٹر اسٹارٹ نہیں ہوتا تھا تو پھر اسکوٹر کے پلگ کو دیکھا جاتا تھا اور کوشش ہوتی تھی کہ پلگ کو صاف کرکے اور اس کے پوائنٹ کو اتنا قریب کر دیا جاتا تھا کہ اگنیشن کے بعد یہ اسٹارٹ ہو جائے۔
لائٹ وغیرہ کو ٹھیک کرانے میں تو اسکوٹر والا ٹال مٹول کر دیتا تھا لیکن اگر کلچ یا گیر کا تار ٹوٹ جاتا تھا تو اس کو فورا لگانا ہوتا تھا اور وہ پلگ کی طرح خود نہیں بلکہ میکینک سے ڈلوایا جاتا تھا۔ ٹائر میں پنکچر ہو جائے تو بھی میکینک کے پاس ہی اس کا علاج ہوتا تھا۔ بہرحال یہ بیتے دنوں کی بات ہے جب اسکوٹر ضرورت اور پہچان دونوں کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔