ووٹ حاصل کرنے کے لیے فلم کا سہارا... ناہید عطاء اللہ
’رضاکار‘ فلم کا ٹریلر بتاتا ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کس طرح فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش میں مصروف ہے۔
’رضاکار‘ کے فلمساز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ پیریڈ فلم ہے، تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ تیلگو فلم ’رضاکار‘ کو واقعی ریلیز کے لیے سرٹیفکیٹ مل چکا ہے یا نہیں، لیکن فلمساز دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اکتوبر میں ریلیز ہوگی۔ یعنی تلنگانہ میں اسمبلی انتخاب سے دو ماہ قبل۔ ویسے برسراقتدار بی آر ایس (بھارت راشٹر سمیتی) یہ مانتے ہوئے اس کی ریلیز رکوانے کے لیے کوشں ہے کہ یہ سیاسی پروپیگنڈہ پر مبنی اشتعال بھڑکانے والی فلم ہے۔
تقریباً 2 منٹ کا فلم کا ٹیزر 17 ستمبر کو حیدر آباد میں ریلیز کیا گیا۔ اس سے دو باتیں سامنے آئیں- اس کا پروڈکشن چالاکی بھرا، خرچیلا ہے، اس میں حال کے دنوں میں چند ایک سب سے زیادہ بہیمانہ، تشدد، قتل عام اور عصمت دری کے مناظر ہیں (اور کیا ہم نے ویسے مناظر حال میں نہیں دیکھے ہیں؟)۔
اپنے اشتعال انگیز بیانات کے لیے مشہور اور معطل بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ نے اس فلم کی خوب تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ ’’یہ بہترین فلم ہے۔‘‘ انھیں ٹیزر ریلیز کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے لوگوں سے اس فلم کو لے کر ’بیداری پھیلانے‘ کے لیے کہا ہے۔ اس فلم کا ٹیزر ایک مسودے سے شروع ہوتا ہے: ’’15 اگست، 1947۔ ہندوستان نے آزادی پائی، لیکن حیدر آباد نے نہیں۔‘‘ اس کے بعد کے مناظر میں حیدر آباد کو ’ترکستان‘ بنا دینے کا دعویٰ کرنے والے داڑھی والے مسلمان نظر آتے ہیں۔ یہ رضاکار ہیں جو کسی ہندو کی مونچھ یا اس کی زبان کاٹ ڈالتے ہیں۔ کسی بڑے درخت کی شاخوں پر کئی لاشیں لٹکی ہیں۔ ایک مسلم افسر ایک برہمن کی پاکیزہ جنیو توڑ ڈالتا ہے۔
فلم ’رضاکار: سائلنٹ جینوسائڈ اِن حیدر آباد‘ کے پروڈیوسر ہیں بی جے پی لیڈر گڈور نارائن ریڈی۔ وہ تلنگانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب آپ یہ جان جاتے ہیں تو 17 ستمبر کو اس کی ریلیز کی ٹائمنگ کی گتھی اپنے آپ سلجھ جاتی ہے۔ اسی دن مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ریلی میں حصہ لینے ریاست میں تھے۔ اور رضاکار کون تھے؟ یہ حیدر آباد کے نظام کی ذاتی فوج تھی، جس نے اراضی مالکان کے خلاف تحریک چلانے والے کمیونسٹوں اور ایسے ہندوؤں و مسلمانوں دونوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیے تھے جو ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ جا کر نظام کی خود مختار بادشاہی برقرار رکھنے کے منصوبہ کے خلاف تھے۔
لیکن ٹیزر خاص طور سے ہندوؤں پر مبینہ مظالم پر مرکوز ہے۔ بی آر ایس کے ایگزیکٹیو صدر اور آئی ٹی وزیر کے ٹی راما راؤ نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخاب سے پہلے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی واضح کوشش ہے۔ انھوں نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر پوسٹ کیا کہ ’’بی جے پی کے کچھ دماغی طور پر دیوالیے جوکر تلنگانہ میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے اور اپنے سیاسی پروپیگنڈہ کے لیے پولرائزیشن کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کو سنسر بورڈ کے پاس لے جائیں گے اور تلنگانہ پولیس کو یہ یقینی کرنے کے لیے کہیں گے کہ ریاست کا نظامِ قانون متاثر نہ ہو۔‘‘
صرف راماراؤ کا ہی یہ خیال نہیں ہے کہ بی جے پی انتخاب جیتنے کے لیے فلم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، سیاسی مبصرین کرناٹک میں کچھ اسی قسم کی ہوئی کوشش کی یاد دلاتے ہیں۔ وہاں بھی ہندوؤں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کے تحت مئی میں انتخاب سے پہلے بی جے پی نے ٹیپو سلطان کو ہندو مخالف اور ویلن کی شکل میں پیش کیا تھا۔ حالانکہ یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ شیر میسور نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج کی مخالفت کی تھی اور ان کے خلاف لڑتے ہوئے وہ شہید ہوئے تھے۔ میسور کے حاکم ٹیپو سلطان کے خلاف لگاتار جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم دراصل تاریخ کو لے کر لوگوں کی جانکاری کو غلط ثابت کرنا اور ریاست کے مسلمانوں کو بے عزت کرنا تھا۔ اس کے مقابلے میں فلم ’رضاکار‘ کے ذریعہ غلط جانکاری پھیلانا آسان ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ یہ بغیر کسی چہرہ والی فوج تھی۔ اس میں کوئی قومی ہیرو نہیں تھا اور یہ باتیں کسی اسکول کی تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں ہے۔ اس تیلگو فلم کو کئی زبانوں میں ڈَب کیا جا رہا ہے۔ یہ ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے نقش قدم پر ہے، دونوں فلمیں سچی تاریخ کے نام پر مسلمانوں کی اسٹیریوٹائپ شبیہ پیش کرتی ہیں اور انھیں بدنام کرتی ہیں۔
پروڈیوسر گڈور نارائن ریڈی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی خواہش ایسے کم مشہور تاریخی شواہد کو ظاہر کرنا ہے، جنھیں دبا دیا گیا ہے۔ انھوں نے راقم الحروف سے فون پر بات چیت میں کہا کہ ’’میرے دادا آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے رضاکار چیف قاسم کی جیپ کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ رضاکاروں نے وہاں مظالم کیے جو میرے گاؤں گڈور سے بمشکل دو کلومیٹر دور اس وقت نالکونڈا والی جگہ تھی۔ میں ان مظالم کے بارے میں سنتا ہوا گاؤں میں بڑا ہوا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ ریڈی 40 سال تک کانگریس رکن تھے۔ وہ 2020 میں بی جے پی کے ساتھ جڑے۔ ان کی کرناٹک کے کوڈاگو میں باغبانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم بنانے کے لیے انھیں روحانی پیغام ملا۔ انھوں نے کہا کہ ’’26 جنوری 2022 کو جب ان کے طیارہ نے تروپتی کی زمین چھوئی، رضاکار نام اچانک ان کے دماغ میں آیا۔ لگا جیسے بھگوان ان سے فلم بنانے کو کہہ رہے ہوں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس فلم کو بنانے کا عمل اگست 2022 میں شروع ہوا تھا اور میرا مقصد نفرت پھیلا نہیں ہے۔‘‘
لیکن ان کی بات سے سبھی متفق نہیں ہیں۔ 1947 کے فوراً بعد کی مدت میں حکومت ہند کی طرف سے پولیس کارروائی ہوئی اور 1948 کا وقت کافی اتھل پتھل بھرا رہا تھا۔ مختلف اندازوں کے مطابق 27000 سے 40000 لوگ مارے گئے۔ مظالم کے کئی واقعات کے لیے ہندو اراضی مالکان کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جنھوں نے ایسے رضاکاروں کی حمایت کی جو حیدر آباد کو مسلم حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے تھے اور ہندوستان میں انضمام کے خلاف تھے۔ رضاکاروں نے کمیونسٹوں کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ اراضی مالکان اور نظام دونوں کے خلاف تھے۔
بی آر ایس ترجمان ڈاکٹر شرون داسوجو کے مطابق دوسری طرف کئی مسلمانوں نے حیدر آباد کے ہدنوستان میں انضمام کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ ڈاکٹر داسوجو کہتے ہیں کہ فلم میں اس مدت کے کچھ خاص حصے ہی لیے گئے معلوم ہوتے ہیں اور انھیں ضرورت سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے پرانے زخموں کو کرید رہا ہے جو سالوں پہلے ٹھیک ہو چکے ہیں اور اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے پولرائزیشن کا خطرہ ہے۔ وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ چند ایک واقعات تو ہوئے تھے، لیکن انھیں پورے دور میں موازنہ کرتے ہوئے تشدد کے ضمن میں رکھا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں سمجھنا ہوگا کہ رضاکاروں کا معاملہ اراضی مالکان کے سامنتی استحصال اور سامنت کے خلاف عوامی انقلاب کے وقت کا تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یہ اپنے سیاسی فائدہ کے لیے بی جے پی کی دونوں طبقات کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش ہے، کیونکہ اس کے پاس نہ تو تلنگانہ اور نہ ہی ملک میں لوگوں کے سامنے ترقیاتی منظرنامہ پیش کرنے کے لیے کچھ ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے رضاکاروں کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
ریڈی کے دعوے کے بالکل برعکس کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے کنبہ سے جڑا اندوہناک واقعہ ہے۔ اس وقت بیدر نظام کے حکومت میں تھا اور وہاں رضاکاروں نے جو مظالم کیے، اس تشدد میں کھڑگے اپنی ماں اور بہن سے محروم ہو گئے۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اس وقت کھڑگے اور ان کے والد باہر تھے۔ جب وہ لوٹے تو انھیں واقعہ کے بارے میں بتایا گیا اور انھیں بھاگ جانے کا مشورہ دیا گیا۔ نظام کے خوف سے کسی نے انھیں پناہ نہیں دی۔ کنبہ کے بچے لوگوں نے کرناٹک کے کلبرگی میں پناہ لی اور وہاں نئی زندگی شروع کی۔ کھڑگے کی عوامی زندگی سے صاف ہے کہ وہ رضاکاروں کے تشدد کو ’مسلم حملہ‘ نہیں مانتے۔ اس کی جگہ انھوں نے اپنے بیٹے پریانک کھڑگے کو اس وقت کی تاریخ پڑھائی۔ پریانک ابھی کرناٹک میں آئی ٹی وزیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں ایسے کئی مسلم کنبوں کو جانتا ہوں جنھیں نشانہ بنایا گیا، کیونکہ رضاکار بھاڑے کے فوجی تھے اور اس کا مذہب سے کوئی مطلب نہیں تھا۔‘‘
اس سے صاف ہے کہ بی جے پی اس فلم کے ذریعہ ووٹوں کی سواری کرنا چاہتی ہے۔ لیکن جو عام نظریہ ہے، وہ یہی ہے کہ اسے کامیابی نہیں ملنے والی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔