ایک وراثت جسے بھول جانا ہی بہتر ہوگا... ابھے شکلا

کبھی بھی ملک نے چیف جسٹس کے عہدہ اور ان کے جانشیں سے زیادہ امیدیں نہیں رکھی تھیں، چندرچوڑ کی وراثت یہی ہوگی کہ انھوں نے بھی ملک کو مایوس ہی کیا۔

<div class="paragraphs"><p>چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، تصویر آئی اے این ایس

user

ابھے شکلا

ملک کے موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ان دنوں اکثر کہتے ہیں کہ اگلے مہینے جب وہ سبکدوش ہوں گے تو کیا وراثت چھوڑ کر جائیں گے۔ چندرچوڑ تب چیف جسٹس آف انڈیا بنے تھے جب ملک کے حال کی تاریخ کا شاید سب سے اہم دور چل رہا تھا، جس میں ہر جمہوری اور اخلاقی اصول کو منمانی کرنے والی حکومت کے ذریعہ کچلا جا رہا تھا۔ یہ اس لیے بھی اہم دور تھا کیونکہ ان کے پہلے اس عہدہ پر رہے لوگوں نے ملک کو نہ صرف مایوس کیا تھا بلکہ سبکدوشی کے بعد کے فائدے حاصل کرنے کے لیے ہتک آمیز طور طریقے کو اختیار کیا تھا۔ حالانکہ کبھی بھی ملک نے چیف جسٹس کے عہدہ اور ان کے جانشیں سے بہت زیادہ امیدیں نہیں رکھی تھیں۔ چندرچوڑ کی وراثت یہی ہوگی کہ انھوں نے بھی ملک کو مایوس ہی کیا۔

شیکسپیئر نے کہا تھا ’’ایمانداری سب سے بہتر وراثت ہوتی ہے‘‘۔ لیکن افسوسناک ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس ایماندار نہیں رہے، نہ ہمارے ساتھ اور نہ ہی اپنے ساتھ۔ عدالت کے باہر تقاریب، تقاریر، جلسۂ تقسیم اسناد اور ذاتی تبصروں میں بھی چندرچوڑ کچھ اہم باتیں کہتے رہے ہیں۔ ان میں ذاتی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی کثرت، آئینی تحفظ کے طریقوں اور ایگزیکٹیو کی جوابدہی کے لیے عدالت کی ذمہ داریوں پر زور دینا وغیرہ شامل ہے۔ لیکن اپنی عدالت میں وہ اپنے ان مضبوط عزائم اور ہمت سے دور رہے۔ کئی بار لوگوں کو حیرانی بھی ہوتی رہی کہ کیا ان کے پاس کوئی مضبوط بھروسہ ہے بھی یا نہیں۔ الیکزنڈر پوپ کے الفاظ میں: وہ کسی کو زخمی کرنے کو تو تیار تھے، لیکن حملہ کرنے سے ڈرتے تھے۔ کسی جج کی وراثت کی یہ بنیاد تو نہیں ہو سکتی۔


آنے والے وقت میں سپریم کورٹ کے ریکارڈ اپنی کہانی خود ہی بیان کریں گے۔ جسٹس چندرچوڑ کے پاس بہت سے ایسے مواقع تھے جب وہ چیزوں کو درست کر سکتے تھے۔ اداروں کی خود مختاری بحال کرنے (الیکشن کمشنرز کی تقرری کا معاملہ)، بے لگام ریاستی حکومتوں کی منمانی (یوپی، اتراکھنڈ اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں بلڈوزر ایکشن)، شہریوں کی غیر قانونی نگرانی (پیگاسس معاملہ)، ریاستوں کی درجہ بحالی (جموں و کشمیر)، غیر قانونی طریقے سے گرائی گئی جائز طریقے سے منتخب حکومتوں کی بحالی (مہاراشٹر)، انتخابی طریقہ کار میں بھروسہ اور اعتماد قائم کرنا (ای وی ایم، وی وی پیٹ کے ایشوز)، انتخابی کمیشن کا اس کے مشتبہ اقدام اور فیصلوں پر غیر جوابدہی، ڈالے گئے ووٹ اور شمار کیے گئے ووٹوں میں فرق، مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جانبداری وغیرہ پر کچھ کر سکتے تھے۔ لیکن یہ ہو نہ سکا۔

سب سے افسوسناک اور مایوس کن پہلو غالباً یہ رہا کہ اس دوران ہزاروں سماجی کارکنان، صحافیوں، عدم اتفاق ظاہر کرنے والوں، ماہرین تعلیم اور حقوق انسانی کارکنان کو بغیر مقدمات کے سالوں سے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ عمر خالد کی ضمانت عرضی پر سماعت لگاتار ملتوی ہوتی رہی ہے۔ کئی بار ججوں نے اس معاملے سے بغیر کوئی وجہ بتائے خود کو الگ کر لیا ہے۔ بھیما-کوریگاؤں معاملے میں جیل بھیجے گئے لوگوں کو قسطوں میں ضمانت دی جا رہی ہے، مانو انصاف بانٹی جانے والی کوئی شئے ہو۔ کچھ کی تو جیل میں دوران حراست ہی موت ہو گئی۔ فادر اسٹین سوامی اور پروفیسر جی این سائیں بابا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔


رام جنم بھومی-بابری مسجد معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو کون مورخ بھول سکتا ہے جس میں ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اکثریتی طبقہ کے عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا گیا۔ کیا اس سے ملک اور عدلیہ کا سر شرم سے نہیں جھک جانا چاہیے؟ اس فیصلے کے بعد سامنے آئیں وہ تصویریں جن میں ہندو فریق کے حق میں فیصلہ سنانے والے جج فائیو اسٹار ہوٹل میں شراب کے ساتھ لذیذ پکوان کھا کر جشن مناتے ہوئے نظر آئے تھے۔ یہ بھی اسی دور میں درج ہوا ہے۔

جسٹس چندرچوڑ کی ناک کے نیچے ہی مرکزی حکومت کو کالجیم کو مزید کمزور کرنے کی چھوٹ دی گئی جس میں ججوں کی تقرری میں تاخیر، انتخاب اور منتخب کیے گئے یا سفارش کردہ ناموں پر حکمت عملی والی خاموشی اختیار کر لینا وغیرہ شامل ہے۔ یہی حشر درجنوں ہیبیس کارپس عرضیوں کا ہوا ہے جو اب عدالت کی رجسٹری میں دفن ہیں۔ سیبی (ہنڈن برگ) اور پیگاسس جانچ کبھی بھی مدلل نتائج تک نہیں پہنچیں۔ ایک جبراً وصولی ریکٹ کی طرح چلنے والے الیکٹورل بانڈ کے فیصلے کے ساتھ کھلے مسائل کے پٹارے کو پھر سے جلدبازی میں بند کر دیا گیا۔


لمبی لمبی تقریریں اور چٹکیلے جملوں کے باوجود کسی سرکاری افسر کو صحیح معنوں میں کسی قصور کے لیے سزا نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ چنڈی گڑھ کے میئر الیکشن میں کھلے عام دھاندلی کے ثبوتوں کے باوجود اسے کوئی سزا عزت مآج چیف جسٹس نے نہیں سنائی۔ نہ کسی انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، نہ کسی بلڈوزر، بیوروکریٹ یا کسی سرکاری ایجنسی کو کسی غلطی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا، جبکہ کئی معاملوں میں دوسری عدالتوں نے انھیں جوابدہ مانا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ عزت مآب چندرچوڑ خود سبھی خامیوں اور غلطیوں کے لیے سیدھے ذمہ دار نہیں تھے، کیونکہ کئی فیصلے اور معاملے دوسری بنچوں نے طے کیے تھے۔ لیکن چیف جسٹس کے ناطے قصور تو انھیں شیئر کرنا ہی ہوگا۔ کہاوت ہے کہ اگر تعریفیں حاصل کرتے ہیں تو تنقید بھی برداشت کرنی چاہیے۔


چیف جسٹس کچھ ہائی کورٹس میں دھیرے دھیرے بڑھتی سیاست کاری، ججوں کے ذریعہ کھلے عام مذاہب کے تئیں ایمانداری ظاہر کرنے، ان کے فیصلوں میں مذہبی تعصب، ججوں کے سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے اور یہاں تک کہ سبکدوش ہونے کے فوراً بعد انتخاب میں کھڑے ہونے اور سبکدوش ججوں کے مذہبی تقاریب میں حصہ لینے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ یہ ایشو ان تعصبات کے جواز کا نہیں بلکہ آئینی اقدار کے جذبات کا ہے جسے بنائے رکھنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ جسٹس چندرچوڑ خود ہمیں اکثر یاد دلاتے رہے ہیں کہ کسی قانون کا جذبہ اس کے الفاظ جتنے ہی اہم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ واضح بولتے، اپنے ساتھی ججوں کو ان کے رویہ پر ٹوکتے اور سپریم کورٹ کے ذریعہ 1997 میں جاری عدلیہ کے عدالتی زندگی والے اقدار کی یاد دلاتے۔

چیف جسٹس کا ہر لفظ سوچ کو متاثر کرتا ہے۔ انھیں تو تبلیغ کا شوق رہا ہے، ایسے میں ان کا فرض تھا کہ وہ ججوں کے رویہ کے لیے طے اخلاقی حدود کو دہراتے۔ ایسا نہ کر کے وہ عدلیہ کے زوال میں خود شراکت دار بن گئے ہیں۔ انھوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی دیے ہیں جن کی تعریف ہونی چاہیے۔ مثلاً ہم جنس پرستی کے جرم ہونے کو منسوخ کرنا یا ٹرانسجنڈر کے حقوق کی بحالی وغیرہ۔ اصلی جج کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب وہ حکومت کی منمانی کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ اس محاذ پر ان کے فیصلے بہت زیادہ نظر نہیں آتے۔


بہت سے ایسے معاملوں پر کافی وقت خرچ کیا گیا جس میں عدالت کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر کسانوں کی تحریک یا کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج کا معاملہ۔ ان میں لگا کہ عدالت حکومت کی طرف سے کھڑی ہے۔ کسانوں نے عدالت کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا تھا اور کولکاتا کے ڈاکٹروں نے بھی کام پر لوٹنے کا مشورہ نہیں مانا۔ شاید کسی کو چیف جسٹس کو پبلک ایڈمنسٹریشن کے اس پہلے اصول کی یاد دلانی چاہیے تھی کہ اپنے حلقۂ اثر سے باہر اپنے حلقہ اختیار کی توسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اب جب جسٹس چندرچوڑ ریٹائر ہونے والے ہیں تو بھی وہ اپنے کھوکھلے علامتی خطبہ دینے کا شوق جاری رکھیں گے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے انصاف کی دیوی کی نئی مورتی کا افتتاح کیا ہے جس میں دیوی کی آنکھوں پر اب کوئی پٹی نہیں ہے۔ یعنی قانون اب اندھا نہیں ہے، اور دیوی تلوار کی جگہ ہندوستانی آئین پکڑے ہوئی ہے۔ اس ڈرامائیت سے کوئی دقت نہیں ہے، کیونکہ میرے لیے گاندھی کے تین بندر آج بھی ہمارے نظامِ انصاف کی حالت کو بہتر طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔


یہ مضمون افسوس اور مایوسی کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کیا کچھ ہو سکتا تھا۔ ایک شخص تھا، جسٹس تھا، دانشور تھا، مہذب انسان تھا، ہمدرد تھا، قانونی ہنر رکھنے والا تھا جو ملک کو اس دلدل سے باہر نکالنے کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا جس میں اسے دھکیلا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا، بلکہ یہ ہے کہ اس نے ایسا نہیں کرنے کا فیصلہ کیا۔

کاش اس شخص نے مدر ٹریسا جیسی پاکیزہ خدمت کے ان پاکیزہ الفاظ سے کچھ سیکھا ہوتا جن کی وراثت نسلوں تک زندہ رہے گی۔ مدر ٹریسا نے کہا تھا: دنیا آپ کی مثالوں سے بدلتی ہے نہ کہ آپ کی رائے سے۔

الوداع یور لارڈشپ، آپ کو نیک خواہشات۔

(ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں۔ یہ https://avayshukla.blogspot.com پر پوسٹ کیے گئے ان کے مضمون کا اختصار ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔