تحریک آزادی کا ایک فراموش کردار، کرنول نواب غلام رسول خان...یومِ شہادت کے موقع پر

جب نواب غلام رسول خان 1823 کو مسند پر متمکن ہوئے تو برصغیر کمپنی کی منظم جعل سازیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی دانائی و فراست کا مظاہرہ کر کے کمپنی بہادر میں تغزل پیدا کر دیا

<div class="paragraphs"><p>کرنول نواب غلام رسول خان / تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

کرنول نواب غلام رسول خان / تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف مدارس کے بورے انشینوں سے لے کر خاص و عام نے اپنی جان و مال کا ایسا نذرانہ پیش کیا کہ ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں بچا جو مسلمانوں کے لہو سے لالہ زار نہیں ہوا ہو۔ ایسے ہی جانباز جگر گوشوں کی فہرست میں نواب کرنول غلام رسول خان صوبہ اندھیرا پردیش بھی شامل ہیں۔ جنہیں بچپن سے ہی بیرونی تاجران فرنگ سے شدید نفرت تھی۔

جب نواب غلام رسول خان 1823 کو مسند پر متمکن ہوئے اس وقت پورا برصغیر کمپنی کی منظم جعل سازیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ لیکن نواب موصوف نے اپنی دانائی و فراست کا اعلیٰ مظاہرہ کر کے کمپنی بہادر میں تغزل پیدا کر دیا۔ انہوں نے اپنی ریاست کو انگریزی کارستانیوں سے ہر ممکنہ طریقے سے محفوظ کرنے کے لئے اقدام اٹھائے اور مادر ہند کو بیرونی قوت کے خونی آشامی پنجوں سے پاک کرنے کے لیے دو دو ہاتھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس ضمن میں ریاست حیدرآباد کے ایک محب الوطن شہزادے گوہر علی خان عرف مبارز الدولہ سے ربط و ضبط پیدا کیا۔ حالات کے مدنظر کرنول کے اپنے قلعے کو اسلحہ کارخانے میں تبدیل کر دیا۔ مگر مکر و فریب کے پتلے انگریز حکام کی عمیق نظریں نواب کے ہر قدم پر تھیں لہٰذا انہوں نے نواب غلام رسول کے رشتے کے بھائیوں کو اقتدار کے سبز باغ دکھا کر اپنے خیمہ میں ملا لیا اور ان کے خلاف سازشیں رچنے لگے۔


نواب صاحب کے ضمیر فروش بھائیوں نے جنرل فریزر کو ان کی جنگی حکمت عملی اور تیاریوں کے بارے میں 23 اگست 1839 کو آگاہ کیا۔ جسے سن کر کمپنی افسران کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انہوں نے ایڈورڈ آرمسٹرانگ کو اس معاملے کی تہہ تک جانے اور فوراً رپورٹ کرنے کے لیے مقرر کیا۔ مزید برآں ایڈورڈ نے جنرل فریزر کو خط لکھا کہ کرنول کے نواب کا اسلحہ خانہ بہت بڑا ہے۔ جنگ کے لیے اس کی تیاری کو بیان کرنا مشکل ہے۔ اس نے باغات اور شاہی محلات کو محکمہ حرب میں بدل دیا۔

جنرل فریزر نے فلی الفور کرنل اے بی کی کمان میں کرنول کے قلعے پر مسخر کرنے اور نواب غلام رسول خان کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا۔ انگریزی دستہ نے 12 اکتوبر 1839 کو کرنول کے قلعے پر یلغار کی اور اسے محصور کر لیا۔ الحاصل فرنگی چھ دن کی شدید لڑائی کے بعد انہیں 18 اکتوبر 1839 کو کرنول کے قریب ایک موضع جوہرا پورم میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بعد ازاں برطانوی حکام غلام رسول خان کو تروچیناپلی لے گئے اور وہاں کی جیل میں قید کر دیا۔ انگریز افسران کرنول کے نواب سے جلد از جلد پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔

چنانچہ انہوں نے نواب کے ذاتی خادم کو چند سکّوں کے عوض ان کے کھانے میں زہر ملانے کے لیے آمادہ کر لیا۔ خادم کی ساز باز سے نواب غلام رسول خان 12 جولائی 1840 کو وفات پا گئے۔ مگر وہ لالچی فرنگیوں کی دجالی فطرت سے واقف نہیں تھا کہ وہ اپنے ہی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں اور جس کی تکمیل کے لیے دوسروں کو بلی کا بکرا بناتے ہیں۔ چنانچہ کمپنی نے اس پر قتل کا الزام لگایا اور اسے موت کی سزا سنائی۔

انگریز انتظامیہ نے اپنی مبینہ سازش کو چھپانے کی پوری تگ و دو کی لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔ نواب غلام رسول خان کو آج بھی آندھرا پردیش کے رائلسیما علاقے کے لوگ ‘کنداناولو نوابو کتھا’ (کرنول نواب کی کہانی) کے عنوان سے نغمہ گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔