مودی حکومت کے 9 سال: حکومت کی ناکامی کی بھینٹ چڑھے لاکھوں کورونا متاثرین
ایک طرف کورونا غریبوں کی جانیں لینے پر تلا ہوا تھا تو دوسری طرف لاک ڈاؤن نے مزدور طبقے کا جینا مشکل کر دیا تھا، مزدور طبقہ لاک ڈاؤن سے جس بری طرح متاثر ہوا اس کے اثر سے وہ آج تک نجات نہیں پا سکا
اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا محاورہ مودی حکومت پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ اس حکومت کا 9 برس کا رپورٹ کارڈ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ ہر محاذ پر بری طرح ناکام رہی ہے لیکن جھوٹا پروپگنڈہ کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں ماہر مودی حکومت تال ٹھونک کر اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے۔
مودی حکومت کی 9 برس کی کارکرد گی صحت کے شعبے میں بھی نہایت ناقص رہی ہے خاص طور سے کورونا وائرس پھیلنے کے دور میں عوام الناس کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بہت درد ناک اور افسوسناک ہے۔ دیگر محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی مودی سرکار نے جھوٹ اور پروپگنڈہ کی اپنی آزمودہ پالیسی سے ہی کام لیا۔ حکومت نے کورونا کا شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد میں بھی گھال میل کیا اور کورونا ویکسین لگانے کے معاملے میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ ایک طرف سرکاری اور پرائویٹ اسپتالوں میں دواؤں، وینٹی لیٹرز اور آکسیجن کی قلت سے لوگ مرتے رہے اور دوسری طرف کورونا بھگانے کے لئے لوگوں کو تالی اور تھالی پیٹنے کے کام پر لگا دیا گیا۔
کورونا وائرس پھیلنے کے خاص طور سے دو مرحلے مودی حکومت کے سامنے آئے۔ پہلے مرحلے کی سنگینی کا تو مودی حکومت کو اندازہ ہی نہیں ہو سکا۔ وہ تو جب مختلف ریاستوں میں لوگوں کے مرنے کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا تب وہ خواب خرگوش سے بیدار ہوئی۔ کورونا وائرس کے اس مرحلے کو مودی حکومت کی کارکردگی کے لحاظ سے اگر یاد کیا جائے گا تو اسے تالی اور تھالی بجوانے اور لاک ڈاؤن کے اچانک فیصلے کے تناظر میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔
ایک طرف کورونا غریبوں کی جانیں لینے پر تلا ہوا تھا تو دوسری طرف لاک ڈاؤن نے مزدور طبقے کا جینا مشکل کر دیا تھا۔ روز کنواں کھود کر روز پانی پینے والا مزدور طبقہ لاک ڈاؤن سے جس بری طرح متاثر ہوا اس کے اثر سے وہ آج تک نجات نہیں پا سکا ہے۔لاک ڈاؤن نے مزدور پیشہ لوگوں، کسانوں، چھوٹے کاروباریوں، تاجروں اور چھوٹا موٹا کام دھندہ کرنے والوں کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی لیکن حکومت کی جانب سے انہیں جو مدد دی گئی وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں تھی لیکن کورونا سے مقابلے کے لئے پی ایم کیئر فنڈ قائم کرکے ملک کے ارب پتیوں، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے کروڑوں روپئے حاصل کئے گئے۔ جن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ پی ایم کیئر فنڈ کی کتنی رقم کورونا سے مقابلے اور متاثرین کی مدد پر صرف کی گئی۔
کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے معاملے پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے مودی حکومت کے جھوٹ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ مارچ 2020 اور دسمبر 2021 کے دوران ہندستان میں 4.7 ملین یعنی 47 لاکھ افراد کورونا کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد مودی حکومت کے ذریعے بتائی جانے والی تعداد سے 10 گنا زیادہ ہے۔ مودی حکومت کو اپنا جھوٹ پکڑا جانا برداشت نہیں ہوا اور اس نے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کو تعداد برامد کرنے کے اس کے طریقہ کار کو ناقص بتا کر یکسر مسترد کر دیا۔
کورونا وبا پر قابو پانے میں ناکامی کے الزامات لگانے والی ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے دعوے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے اور مضبوط ہو گئے۔ ان کے حملے مودی حکومت پر اس تعلق سے تیز ہو گئے۔ حکومت نے کورونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی کے اپوزیشن کے الزامات کو خالص سیاسی کہہ کر مسترد کر دیا۔ مودی حکومت اسی دعوے پر اڑی رہی کہ 2020 میں گزشتہ برس کی نسبت 474,806 افراد زیادہ ہلاک ہوئے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ ان میں وبا کا شکار کتنے لوگ ہوئے۔ 2021 میں ہلاک ہونے والوں کے اعداد و شمار کو منظر عام پر لایا ہی نہیں گیا۔
جہاں تک کورونا کی دوسری لہر کا تعلق ہے تو جس طرح سے اس سے نمٹنے کی کوشش کی گئی اس سے صاف ظاہر تھا کہ حکومت نے پہلی لہر کے دوران ہوئی لاپرواہیوں اور ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں لیا۔ دوسری لہر نے بھی ملک کے صحت عامہ کے نظام کی پول کھول کر رکھ دی۔ اس نے اس گمان کو بھی مٹی میں ملا دیا کہ مودی جی مضبوط اور بروقت فیصلے لینے والے لیڈر ہیں۔ زیادہ آبادی والی ریاستوں اتر پردیش اور بہار میں کورونا کا قہر زیادہ شدید تھا اور ان ہی ریاستوں میں اموات اور کورونا متاثرین کی تعداد درج کرنے کا کام صحیح طریقے سے نہیں کیا گیا۔ اتر پردیش کے کئی شہروں میں گنگا میں بڑی تعداد میں لاشیں تیرتی نظر آئیں۔ سیکڑوں ادھ جلی لاشیں حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہی تھیں۔
گنگا میں تیرتی لاشوں اور گنگا کنارے جلتی چتاؤں نے اس یقین کو اور پختہ کیا کہ ملک کے ہر علاقے میں کورونا نے بڑے پیمانے پر جانوں کا نقصان کیا ہے اور یہ جانی نقصان سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے مریض اسپتالوں تک نہیں پہونچ پائے اور وہ گھروں میں مناسب علاج نہ ہونے کے سبب دم توڑ گئے۔ اس قسم کے اعداد و شمار سرکاری اعداد و شمار کا حصہ نہیں بن سکے۔ جو کورونا متاثرین اسپتالوں تک پہونچنے میں کامیاب ہو گئے وہ دواؤں، وینٹی لیٹرز اور آکسیجن سلنڈروں کی کمی کے سب جان کی بازی ہار بیٹھے۔
کورونا وبا کی دوسری لہر آکسیجن کی قلت کے سبب زیادہ ہولناک ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ ملک میں آکسیجن کی کمی تھی بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جن علاقوں میں اس کی شدید ضرورت تھی وہاں پہونچ نہیں پا رہی تھی۔ آکسیجن کی کمی نے اسپتالوں کو مردہ گھروں میں تبدیل کر دیا تھا اور شمشان گھاٹوں میں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔سرکار کی جانب سے مختلف شہروں میں جو وینٹی لیٹرز فراہم کئے گئے تھے وہ اس قدر ناقص تھے کہ اسپتالوں میں ان کو استعمال ہی نہیں کیا جا سکا۔ دوسری لہر کے دوران تو حکومت نے غریبوں کو وہ تھوڑی بہت مدد بھی نہیں دی جو پہلی لہر میں فراہم کی گئی تھی۔ ضروری اور بنیادی اشیا کی قیمتوں اور بے روزگاری میں اضافے اور مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں ریکارڈ گراوٹ کے ساتھ ساتھ کورونا وبا سے نمٹنے میں سنگین ناکامی کے لئے مودی حکومت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔