’انقلاب زندہ باد‘ کے موجد مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کی 73ویں برسی... شاہد صدیقی علیگ
حسرت موہانی نے ملازمت کے بجائے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک ادبی و سیاسی جریدہ ’اردوئے معلی‘ جاری کیا، جس کا واحد مقصد غفلت زدہ قوم کو بیدار کر کے سیاسی شعور سے آراستہ کرنا تھا۔
مولانا فضل الحسن متخلص حسرت موہانی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک نمائندہ نثر نگار، ممتاز شاعر، مشرقی طرز فکر کے نقاد، بے باک صحافی، شعلہ بیاں مقرر، ہندو-مسلم اتحاد کے نقیب، انقلاب زندہ باد کے موجد، سودیشی تحریک کے پیروکار، جنگ آزادی کے عظیم سپاہی اور محلض سیاستداں تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بھی سرگرم رکن رہے اور زندگی کی آخری سانس تک ہندو-مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کرتے رہے۔
حسرت موہانی کا تعلیمی سفر موہان کے گورنمنٹ مڈل اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول فتح پور سے ہوتا ہوا ایم. اے. او. کالج (علی گڑھ) پہنچا۔ چمن سرسید کے شب و روز نے ان کی زندگی کا رخ یکسر بدل دیا۔ 1903ء میں گریجویشن کیا، لیکن ملازمت کے بجائے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک ادبی و سیاسی جریدہ ’اردوئے معلی‘ جاری کیا، جس کا واحد مقصد غفلت زدہ قوم کو بیدار کر کے سیاسی شعور سے آراستہ کرنا تھا۔ ان دنوں علی گڑھ میں سیاست شجر ممنوعہ تھی، مگر انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور کانگریس کی رکنیت اختیار کر کے 1904ء بمبئی اجلاس میں مندوبین کی حیثیت سے شرکت کی۔ وہ اروند گھوش اور بال گنگا دھر تلک کے انقلابی نظریات کے قائل تھے اور کانگرس کے گرم دَل سے وابستہ تھے۔ 1905ء میں آل انڈیا انڈسٹریل کانفرس کی سرگرمیوں میں پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ اس کے پیش نظر سودیشی تحریک کے زبردست مبلغ بن گئے۔ 1907ء میں سورت اجلاس کے بعد تلک کانگریس سے الگ ہو گئے تو حسرت بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے علیحدہ ہو گئے۔
’اردوئے معلی‘ میں حب الوطنی اور برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف چھپنے والے باغیانہ اور جوشیلے مضامین نے ہلچل مچا دی تھی۔ خصوصاً ملا عبدالقیوم (حیدرآباد) اور برکت بھوپالی کے مضامین نے خاص و عام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جن میں مسلمانوں کو علمی سیاست میں حصّہ لینے کی ترغیب دی گئی تھی۔ 1908ء میں ’اردوئے معلیٰ‘ کے شمارے میں بے نام صاحب قلم کا ایک مضمون مصر کے معروف رہبر مصطفیٰ کامل کی وفات پر شائع ہوا، جس میں مصر میں انگریزوں کی حکمت عملی پر بے لاگ تنقید تھی۔ مگر مقدمہ درج ہونے کے بعد انہوں نے مضمون نگار کا نام نہ بتا کر اس کا الزام اپنے سر لے لیا جس کی پاداش میں حسرت کو دو سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کی زیادتیوں کی شکار ہو گئی۔ بعد ازاں جرمانہ کی رقم ادا کر دی گئی جس کی وجہ سے سزا میں ایک سال کی کمی کر دی گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد 1910ء میں حسرت سید سلیمان ندوی سے ملنے لکھنؤ پہنچے۔ ان کے اصرار پر وہیں قیام کرنا پڑا۔ شدید سردی کا عالم تھا۔ بستر پہ ایک ولایتی کمبل رکھا تھا، جس کی بنا پر پوری رات سکڑ کر گزار دی مگر کمبل کو ہاتھ نہیں لگایا۔ سودیشی تحریک کو مقبول بنانے اور فروغ دینے کے لیے مولانا شبلی کی اعانت سے رسل گنج (علی گڑھ) میں ایک خلافت سودیشی اسٹور بھی کھولا جو وسائل کی کمی کے باوجود ان کی مخلص جدوجہد اور بیگم نشاط النسا کے تعاون کے سبب خوب چلا۔ ان کی تجارتی سرگرمی کو دیکھ کر مولانا شبلی نے ان سے کہا تھا کہ ’’تم آدمی ہو یا جنّ۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشن بنے، اور اب بنیے ہو گئے۔‘‘
27 دسمبر 1921ء کو احمد آباد کے اجلاس میں حسرت سبجیکٹ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس اجلاس میں حسرت نے اپنی شعلہ فشاں تقریر میں گوریلا وار اور کامل آزادی کی تجویز پیش کر دی، جو گاندھی جی کی مخالفت کی وجہ سے خارج ہو گئی۔ لیکن حسرت ہمت نہیں ہارے، بلکہ مسلم لیگ کے اجلاس میں بھی یہی قرارداد پیش کر دی۔ کانگریس اور مسلم لیگ سے بیزار ہو کر ان کا رخ کمیونسٹ پارٹی کی جانب ہو گیا، مگر وہاں بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ حسرت نے جناح کے دو قومی نظریے کی پرزور مخالفت کی۔
ایک جاگیردار خاندان کا فرد ہوتے ہوئے بھی درویشانہ زندگی بسر کی۔ ہمیشہ ریل کے تیسرے درجے اور اندرون شہر یکہ پر سفر کیا۔ حسرت نے پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی کے رکن کی بنا پر چند سرکاری مراعات قبول کرنے کی وزیر اعظم پنڈت نہرو کی بارہا التجا کے باوجود بھی کوئی الاﺅنس نہیں لیا۔
مولانا متضاد شخصیت کے مالک تھے۔ وہ جتنے بڑے دین دار اور نماز روزے کے پابند تھے، اتنا ہی ہندو مذہب کا احترام بھی کرتے تھے۔ اگر انہوں نے متعدد مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی تو جنم اشٹمی کے موقع پر اکثر ورنداون متھرا میں بھی نظر آ جا تے تھے۔
مولانا حسرت موہانی نے تحریک آزادی میں حصّہ لینے کے جرم میں تین مرتبہ تقریباً 5 سال 9 مہینے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انقلاب زندہ باد اور کامل آزادی کا نعرہ لگانے والے حسرت موہانی 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں راہی ملک بقا ہوئے، لیکن شومی قسمت ان کی وفات کے ساتھ ان کی بے لوث سیاسی جدوجہد تاریخ ہند کا گمشدہ باب بن کر رہ گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔