گجرات فسادات کے 20 سال: فضا میں گھلی تھی نفرت جسے محسوس کر آج بھی ہوتی ہے سہرن
ان فسادات کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے صاف تھا کہ 2002 کے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے بڑے پیمانے پر پہلے سے تیاری کی گئی تھی۔
جیسے جیسے گجرات فسادات کی خوفناک خبریں آ رہی تھیں، دہلی میں بیٹھے ہم جیسے لوگوں کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ تقریباً 15 دن بعد جب فسادات کا طوفان کچھ تھما تو میں آپنے 15 سال کے بیٹے ساحر اور شوہر گوہر رضا کے ساتھ گجرات جا پہنچی۔ ہمارے پاس فسادات سے متاثرہ لوگوں کی فوری مدد کرنے لائق سائل تو نہیں تھے، لیکن ہمیں لگا کہ کم از کم ہم ان لوگوں پر جو کچھ گزرا ہے، اور انھوں نے جو برداشت کیا ہے، اسے قلم بند تو کر سکتے ہیں۔ گوہر ایک ڈاکومنٹری فلم بنا رہے تھے اور فوٹوگرافی کا شوقین میرا بیٹا تصویریں لے رہا تھا۔ میں اس دوران جتنے بھی لوگوں سے ممکن تھا، بات چیت کر رہی تھی۔
ہم شروعات میں تقریباً 20 دن وہاں رہے۔ اس کے بعد میں پھر گجرات گئی اور کئی مہینے میں نے گجرات کے الگ الگ حصوں کا دورہ کرنے میں گزارے۔ میں اس دوران ایسی تمام خواتین سے ملی جن پر مظالم ہوئے تھے۔ میں نے انھیں جو بھی ممکن تھا راحت اور باز آبادکاری میں مدد کرتے ہوئے ان کے حالات کو ریکارڈ کیا۔ اسی طرح کام کرتے ہوئے وہاں کام کر رہے ہرش مندر جیسے مزید لوگوں کے ساتھ مل کر ہم نے ’انہد‘ این جی او قائم کیا اور ایک طویل جدوجہد بھرے سفر کی شروعات ہوئی۔ اس دوران کئی رونگٹے کھڑے کر دینے والے جملے ہمارے سامنے آئے۔
جو سب سے خطرناک حالات ہمارے سامنے آئے وہ تھے بہت گہری جڑیں جما چکی نفرت، جو چاروں طرف نظر آ رہی تھی۔ احمد آباد کے ایک این جی او ’پرشانت‘ سے جڑے فادر سیڈرک پرکاش نے ہمیں آس پاس کے علاقوں میں گھمایا۔ ہم جہاں بھی گئے تو ہمیں نظر آئیں سنسان سڑکیں اور گلیاں، جلے ہوئے اور خالی ہو چکے مکان، چاروں طرف بکھرا پڑا گھروں کا سامان، کتابیں، بستر، کپڑے اور بھی بہت کچھ۔ ایک طرح سے ہوا میں نفرت بھری ہوئی تھی۔ جسے ہم محسوس کر سکتے تھے۔ تشدد اور ظلم کی جو خوفناک کہانیاں ہمارے سامنے آئیں، وہ تب تک ممکن نہیں تھیں جب تک کہ ایک پورے جھُنڈ کے دماغ میں نفرت پوری طرح نہ بھر دی گئی ہو۔
ہم بھی اس ماحول میں محفوظ نہیں تھے اور کم از کم دو مواقع ایسے آئے جب ہم بھیڑ کے حملے سے بال بال بچے۔ نروڈا پاٹیا میں میرے شوہر گوہر رضا اور میرا بیٹا ساحر ایک عمارت کے اندر گئے تھے اور وہاں کی فلم اتار رہے تھے، جب کہ میں باہر کھڑی تھی۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑ سی جمع ہونے لگی ہے۔ اسی درمیان اچانک فادر سیڈرک چیخے ’’گوہر کو بولو باہر آئے، ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔‘‘ ہم سب لوگ وہاں سے بھاگے اور ایک گاڑی میں بیٹھ کر باہر نکلے۔
اسی طرح میں اور میرا بیٹا عثمان پورہ میں ایک دکان سے کچھ سامان خرید رہے تھے، جب کہ گوہر ایک اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میرے بیٹے نے پوچھا کہ ’’ابا کے ابھی کتنا وقت اور لگے گا؟‘‘ ابا (ایک مسلم لفظ) سنتے ہی میں نے دکاندار کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا۔ اس نے کچھ لوگوں کو فون کیا اور دیکھتے دیکھتے ایک بھیڑ سی وہاں جمع ہونے لگی۔ میں دوڑ کر اسٹوڈیو کی سیڑھیوں کی طرف بھاگی اور اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً چیختے ہوئے اس عمارت سے باہر نکل گئی۔
دراصل فساد منصوبہ بند تھے اور ان کی تیاری تو ٹرین جلنے کے واقعہ سے پہلے ہو چکی تھی۔ مسلم طبقہ کے کسی بھی گروپ یا رسوخ والوں کو نہیں چھوڑا گیا۔ نرودا پاٹیا، جہاں ایک نچلا متوسط طبقہ کا علاقہ تھا، تو پالدی میں اعلیٰ طبقہ اور دانشور مسلموں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے جسٹس دیویجا سے ملاقات کی۔ ان کا گھر بھی جلا دیا گیا تھا۔ اس علاقے میں ملی جلی آبادی تھی اور ہندو-مسلم ایک ساتھ رہتے تھے۔ لیکن فسادات کا منصوبہ اس طرح بنایا گیا تھا کہ صرف مسلم گھروں کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہی طریقہ ہر اس علاقے میں اختیار کیا گیا جہاں جہاں فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کے گھروں، دکانوں، کاروباروں کی شناخت پہلے سے کر لی گئی تھی۔ کئی چشم دیدوں نے ہمیں بتایا کہ تلوار، ترشول، گیس سلنڈر جیسے اسلحے گجرات کے دور دراز علاقوں تک میں 27 فروری کو ٹرین جلائے جانے کے واقعہ سے کئی دن پہلے ہی تقسیم کیے گئے تھے۔ اس طرح کا بہت سا سامان تو علاقے کے مندروں میں جمع کیا گیا تھا۔
سابرکنٹھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں تو خواتین مٹی کے چولہے پر اوپلوں سے کھانا پکاتی ہیں۔ وہاں کسی کے پاس گیس سلنڈر نہیں تھا، لیکن مقامی مسجد اور مسلموں کے گھروں کو گیس سلنڈر سے اڑا دیا گیا۔ آخر یہ گیس سلنڈر کہاں سے آئے تھے؟ ان فسادات کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے واضح تھا کہ 2002 کے گجرات میں مسلموں کی نسل کشی کی بڑے پیمانے پر پہلے سے تیاری کی گئی تھی۔ کئی متاثرین نے ہمیں بتایا کہ جس بھیڑ نے ان پر حملہ کیا، وہ مقامی لوگ یا ان کے پڑوسی علاقوں کے لوگ نہیں تھے۔ کئی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہزاروں کی بھیڑ کو ٹرکوں میں بھر بھر کر لایا گیا تھا اور جس طرح سے انھوں نے حملہ کیا، وہ ٹرینڈ لگ رہے تھے۔ جو بربریت ان لوگوں نے کی وہ بغیر کسی خاص ٹریننگ کے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
خاص طور سے مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ میں نے ہزاروں متاثرین سے ملاقات کی۔ ان سبھی کا کہنا تھا کہ بھیڑ نے جب بھی مسلم گھروں اور دکانوں پر حملہ کیا، تو خواتین کو کھینچ کر باہر نکالا گیا، ان کے کپڑے پھاڑ دیے گئے، انھیں جسمانی تکلیف دی گئی اور ان کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور پھر انھیں زندہ جلا دیا گیا۔ جو خواتین بچ گئی تھیں، وہ اس بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ایک ریلیف کیمپ میں ایک خاتون نے تمام کہانی تو بتائی لیکن یہ نہیں مانا کہ وہ خود عصمت دری کی شکار تھی۔ حالانکہ ہمیں کئی لوگوں نے بتایا تھا کہ اس کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ شاید یہ ایک طرح کا بچاؤ کا راستہ تھا، اسی لیے ظلم کی بہت سی کہانیاں تو سامنے آ ہی نہیں سکیں۔
جب بھیڑ نے حملہ کیا تو کوثر بانو حاملہ تھی۔ بھیڑ نے اس کا پیٹ پھاڑ دیا تھا اور بچہ وقت سے پہلے باہر آ گیا تھا۔ اس علاقے میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن نے ہمیں کم از کم 8-7 خواتین کی تصویریں دکھائیں جنھیں جلا دیا گیا تھا، اور نزدیک ہی وقت سے پہلے پیٹ سے باہر نکالے گئے بچے بھی پڑے تھے۔
اس سب کے درمیان بہت سی ایسی کہانیاں بھی نظر آئیں جہاں ہندو-دلت اور قبائلیوں نے مسلمانوں کو بچایا اور خواتین کی حفاظت کی۔ تعلیم و تعلم سے منسلک اور شاعر سوروپ دھرو نے ایسی تمام کہانیوں کو ریکارڈ کیا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والوں میں دلت اور قبائلی بھی شامل تھے، لیکن بہت سے قبائلی کنبوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ حملے میں شامل نہیں ہوئے تو ان کا بھی وہی حال کیا جائے گا۔ مسلم کنبوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قبائلی مار کاٹ میں شامل نہیں تھے، لیکن انھوں نے مسلم گھروں میں لوٹ پاٹ ضرور کی تھی اور بعد میں اس سامان کو لوٹا دیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے عصمت دری کی شکار خواتین کو کپڑے وغیرہ بھی دیے اور نزدیک کے ریلیف کیمپوں میں بھی پہنچایا۔
ریلیف کیمپ تو جہنم کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ حکومت کی طرف سے کوئی بھی ریلیف کیمپ نہیں لگایا گیا تھا۔ انھیں مسلم طبقہ، این جی او اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے قائم کیا تھا۔ کیمپوں میں صلاحیت سے زیادہ بھیڑ تھی اور لاکھوں لوگ ان میں تھے۔ لیکن سہولیات کی بے حد کمی تھی۔ یہاں روتے ہوئے بچے اور خواتین تھیں۔ جسمانی تکلیف کی شکار بہت سی خواتین بستروں پر پڑی تھیں، لیکن کوئی طبی خدمات دستیاب نہیں تھیں۔ یہاں تک کہ بیت الخلاء بھی نہیں تھے۔
میں احمد آباد میں ایک نوجوان سے ملی جو کھانے کی قطار میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بچی بھی تھی۔ وہ بات کرتے کرتے رو پڑا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بچی ایک خاص قسم کا آملیٹ ہی کھاتی تھی، لیکن یہاں وہ ایک کٹورا دلیہ کے لیے لائن میں کھڑا ہے۔ غریب طبقے کے لیے کھانے کے لیے لائن میں لگنا کوئی بڑی بات نہیں تھی، لیکن متوسط اور اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کو صرف کھانے کے لیے ہی قطار میں لگنا خون کے آنسو رُلا رہا تھا۔ اس فساد میں ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔
میں نے اسی طرح ایک 60 سالہ خاتون کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئی تھی۔ وہ سب سے پوچھ رہی تھی کہ کیا سلائی مشینیں بانٹی جا رہی ہیں۔ اس کا چہرہ دیکھ کر میں سہر اٹھی تھی، کیونکہ اس کی جگہ میری ماں ہو سکتی تھی۔ آج بھی وہ چہرہ یاد کر کے میں کانپ اٹھتی ہوں۔
(سنیوکتا باسو سے بات چیت پر مبنی)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔