مکہ درزی کا تاریخی امام باڑہ کھنڈر میں ہوتا جا رہا تبدیل
مکہ درزی امام باڑا لکھنؤ کے امام باڑے کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 1838 میں تعمیر تاریخی اور دلکش نقاشی سے مزین اس امام باڑے کی خوبصورتی دیکھتے ہی بنتی ہے۔
اتر پردیش کے سیتا پور واقع مشہور مکہ درزی امام باڑے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت رہی ہے۔ مکہ درزی امام باڑے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ لکھنؤ واقع امام باڑے جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ صحیح بات ہے کہ لکھنؤ کا امام باڑا مناسب دیکھ ریکھ اور تحفظ کے سبب آج بھی مرکزی کشش بنا ہوا ہے جب کہ مکہ درزی کا امام باڑا دیکھ ریکھ کی کمی میں خستہ حالی کا شکار ہے۔
خیرآباد مزاروں کا قصبہ کہلاتا ہے۔ دور دور سے لوگ یہاں زیارت کرنے آتے ہیں۔ قصبے میں ایک امام باڑا بھی ہے جس کی اپنی ایک تاریخی شناخت ہے۔ لیکن آج اپنی تعمیر کے سینکڑوں سال بعد مناسب دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے مکہ درزی کے نام سے مشہور یہ امام باڑا اپنی بے توجہی پر آنسو بہا رہا ہے۔ دھیرے دھیرے یہ امام باڑا کھنڈر میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مکہ درزی امام باڑے کی تاریخ
اتر پردیش کے سیتاپور میں تاریخی نگری خیرآباد ہندو-مسلم اتحاد کی مثال ہے۔ یہاں موجود دورِ مغلیہ کی ثقافت کی نشانی مقبرے، مندر، مسجد، امام باڑے ہیں۔ اسی نگری میں ایک تاریخی مکہ درزی امام باڑا ہے جو خیرآباد کے محلہ ترک پٹی میں واقع ہے۔ یہ امام باڑا لکھنؤ کے امام باڑے کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ تاریخی اور دلکش نقاشی سے مزین اس امام باڑے کی خوبصورتی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ یہ مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ دور دور سے پہنچنے والے لوگوں کی بھی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔
موجودہ وقت میں یہ تاریخی اور قدیم عمارت ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے اور اس امام باڑے کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی تو آنے والے کچھ سالوں میں اس امام باڑے کی تاریخ پوری طرح سے مٹ جائے گی۔ اور اس تاریخی عمارت کے مٹنے کی وجہ سے صرف یہی ہے کہ کسی بھی محکمہ کے ذریعہ اس کی دیکھ ریکھ نہیں ہو رہی ہے۔ عدم توجہی کی وجہ سے کچھ دبنگ لوگ عمارت کو اپنا بسیرا بنائے ہوئے ہیں اور اسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس تاریخی امام باڑے کی نہ تو میونسپل سطح پر کوئی دیکھ بھال ہو رہی ہے اور نہ ہی ضلع سطح پر۔ عمارت کے کئی حصے ٹوٹ چکے ہیں پھر بھی کسی کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ اپنی بہترین نقاشی اور خوبصورت کے لیے مشہور خیرآباد کے جس تاریخی امام باڑے کا مقابلہ لوگ لکھنؤ کے امام باڑے سے کرتے تھے، وہ ان دنوں گردش میں ہے۔ 1838 میں تعمیر ہوئے اس امام باڑے کا رنگ بھی اب دھومل ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت یہاں مغل دور میں اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور بھول بھلیا کی بھی ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ نواب نصرالدین حیدر نے دہلی سے آئے ہنرمند کاریگروں سے اس خوبصورت عمارت کی تعمیر کرائی تھی، لیکن اب یہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے مٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکہ درزی نامی اس امام باڑے کو بچانے کی ذمہ داری اب سبھی مقامی لوگوں پر بھی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ دار حضرات سامنے آئیں اور انتظامیہ پر اس دیکھ ریکھ کا دباؤ بنائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج ہم اس امام باڑے کی بدحالی کے ذمہ دار خود ہیں۔ ہم نے عمارت کی گرتی دیواروں اور مسالہ چھوڑتی لکوریا کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مکہ درزی امام باڑے کو مزید خستہ حال ہونے سے بچایا جائے اور اس کے آس پاس کوڑے کے جمع ہو رہے ڈھیر کو بھی ختم کیا جائے۔ انتظامیہ پر اس بات کا دباؤ بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ امام باڑے کی مرمت کا کام شروع کرے اور ساتھ ہی یہاں مجلس و محفلوں کے انعقاد کا عمل بھی شروع ہو۔ اگر فوری طور پر اس تاریخی ثقافتی نمونے کو بچانے کی کوشش نہیں کی گئی تو پھر بعد میں آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Jul 2020, 5:40 PM