اوکھلا : اہل شوق کی بستی میں ’سرپھروں‘ کی دراندازی
4 جولائی کی تاریخ تھی، رات کے 10.30 بج رہے تھے۔ 26 سالہ نجم الطارق فون پر بات کرتا ہوا تکونا پارک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک پیچھے سے ایک بائک آئی اور نجم الطارق کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی تیز رفتاری کے ساتھ جامعہ کی طرف بڑھتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ نجم الطارق کو یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ کب انھوں نے اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ وہ تو بس اتنا دیکھ سکا کہ ایک شخص بائک چلا رہا تھا اور دوسرا اس کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جس نے اس کا اسمارٹ فون چھین لیا تھا۔
اس طرح کے واقعات اوکھلا علاقے میں اب عام ہو چکے ہیں۔ کبھی کسی خاتون کے گلے سے چین چھین لی جاتی ہے تو کبھی کسی کا والیٹ جیب سے غائب ہو جاتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ لیکن ایسا پہلے نہیں تھا۔ اوکھلا تو تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کا ٹھکانہ تھا۔ اوکھلا تو بسا ہی ہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ اور یہاں کے طالب علموں کی وجہ سے۔ لیکن ایک زمانے میں ’اہل شوق کی بستی‘ کہلانے والا یہ اوکھلا اب ’سرپھروں کا دیار‘معلوم ہونے لگا ہے۔ اوکھلا کی آبادی میں اب پروفیسر، انجینئر، ڈاکٹر اور صنعت و حرفت سے منسلک مہذب لوگوں کے ساتھ ساتھ بدمعاش، غنڈے اور جرائم پیشہ افراد کی شمولیت بھی ہو گئی ہے۔
ذاکر نگر، بٹلہ ہاؤس، کالندی کنج، جوہری فارم، شاہین باغ یہ سب رہائشی علاقے ہیں لیکن بڑی بڑی دکانیں اور مارکیٹ بھی یہاں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ شام کے وقت آپ کو ہر جگہ بھیڑ بھی نظر آئے گی اور ساتھ ہی کسی گلی کی نکڑ پر یا پھر کسی دکان کے بغل میں سگریٹ نوشی یا تمباکو چباتے ہوئے لڑکے بھی نظر آئیں گے جن کا لباس اچھا ہوگا لیکن ان کی ادائیں ان کے ’منچلے‘ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی ہوں گی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر شاہنواز حیدر شمسی جب ایسے لڑکوں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں۔ وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ’قومی آواز‘ سے کہتے ہیں کہ ’’ہماری قوم کدھر جا رہی ہے، لباس تو صاف ہے لیکن ذہن کتنا پراگندہ ہے۔‘‘ ایسی صورت میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخران نوجوانوں کا تعلق کس فیملی یا کس طبقہ سے ہے؟ جواب جاننے کے لیے جب گزشتہ تین دہائیوں سے شاہین باغ میں مقیم محمد شاہد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ اکثر لڑکے غیر تعلیم یافتہ اور غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جینس، ٹی شرٹ، چشمہ اور جوتا پہن کر خود کو ماڈرن ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن جب انھیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو پاکیٹ ماری اور چوری کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں معروف سماجی کارکن عبدالرشید اغوان کا کہنا ہے کہ ’’چوری، جھپٹا ماری وغیرہ کا زیادہ تر واقعہ نشہ کے عادی لوگ کرتے ہیں جن کی تعداد گزشتہ آٹھ دس سالوں میں یہاں بہت بڑھ گئی ہے۔ جب انھیں نشے کی طلب ہوتی ہے تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں اور دس، بیس، پچاس روپے کے لیے بھی جرائم کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘
عبدالرشید جرائم کے واقعات کے علاوہ اوکھلا میں پھیلی گندگی کو اوکھلا کا ایک اہم مسئلہ تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگ پلاسٹک کی تھیلی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور نالے میں پھینک دیتے ہیں جس سے پانی جام کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اوکھلا کے دوسرے علاقوں کے مقابلے ابوالفضل انکلیو میں سڑکوں اور نالوں کا نظام کافی درست ہے لیکن تعمیرات وغیرہ زیادہ ہونے سے بھی نالا جام ہو جاتا ہے جس کے سبب ذرا سی بارش کے بعد آبی جماؤ کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دراصل تعمیرات کا ملبہ اکثر سڑکوں اور گلیوں میں ہی پڑا چھوڑ دیا جاتا ہے جو چھوٹے نالوں کے ساتھ بڑے نالوں کا بھی منھ بند کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں.... اوکھلا: ایک جنگل کے سجنے سنورنے کی داستان
جماعت اسلامی ہند کے دفتر سے لے کر کالندی کنج تک کا علاقہ تو قدرے بہتر بھی ہے لیکن پہلوان چوک، ذاکر نگر، غفور نگر وغیرہ کی حالت تو نہایت خستہ ہے۔ خلیل اللہ مسجد کے علاقہ میں چلے جائیے یا ہری مسجد کی طرف، جوہری فارم چلے جائیے یا اوکھلا وِہار کی جانب ذرا سی بارش میں گھٹنوں تک پانی جمع ہو جاتا ہے۔ 70 کی دہائی سے غفور نگر میں مقیم یاسمین تو اس صورتحال سے اتنا پریشان ہیں کہ علاقہ چھوڑ کر آبائی گاؤں میوات چلی جانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’بارش پہلے بھی ہوا کرتی تھی جب چاروں طرف جنگل تھااور پانی نکلنے کا انتظام بھی نہیں تھا، پھر بھی گھر سے باہر نکلنا اتنا مشکل نہیں ہوتا تھا جتنا اب ہے۔ علاقے کا ڈرینج سسٹم اس قدر خراب ہے اور مکانات اس بے ترتیبی سے بنائے گئے ہیں کہ پانی نکلنے کی کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی۔‘‘ وہ اس کے لیے پولس والوں کو بھی ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’تھوڑے تھوڑے پیسے لے کر بٹلہ ہاؤس اور دیگر علاقوں میں غیر منظم طریقے سے مکان و دکان بنانے کی اجازت دے دی گئی جس نے اوکھلا کی خوبصورتی کو ہی ختم کر دیا۔‘‘
بغور جائزہ لیا جائے تو اوکھلا کا ایک اہم مسئلہ یہاں کی لگاتار بڑھ رہی آبادی بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یاسمین’قومی آواز‘ سے بہ آواز بلند کہتی ہیں کہ اگر علاقے کو رہائش کے لائق بنانا ہے تو سب سے پہلے بڑے مارکیٹوں کو ختم کرنا پڑے گا۔یاسمین کا اعتراض بجا ہے کیونکہ اوکھلا کے کئی علاقوں خصوصاً بٹلہ ہاؤس میں جس طرح کی بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے، سکون کے متلاشی وہاں قدم رکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔یہی سبب ہے کہ ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد نے یا تو خود کو اس ماحول کا عادی بنا لیا ہے یا اوکھلا کے قریب کسی پرسکون مقام مثلاً جسولا، جیت پور، مدن پور کھادر وغیرہ علاقوں میں سکونت اختیار کر رہے ہیں۔
اوکھلا میں چونکہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تعلیم حاصل کرنے آئے طلبا کی کثیر تعداد موجود ہے تو ان کے مسائل کو بھی جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عربی زبان کے ریسرچ اسکالر فیصل نذیر قاسمی کہتے ہیں کہ ’’آج تو مجھے ہاسٹل مل گیا ہے اور آسانیاں میسر ہو گئی ہیں، لیکن کچھ سال قبل جب میں کرایہ کے مکان میں رہ کر پڑھائی کرتا تھا تو بجلی اور پانی کا مسئلہ بے حد پریشان کرتا تھا۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’کئی کئی گھنٹوں تک بجلی نہ رہنے سے پڑھائی کرنے میں اور واٹر سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے دھونے میں بہت دقتیں پیش آتی تھیں۔‘‘ فیصل تو خوش قسمت ہیں کہ انھیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہاسٹل میں جگہ مل گئی لیکن لاتعداد بچے اب بھی کرایہ کے مکانوں میں بجلی اور پانی کے مسئلہ سے ہنوز دو چار ہیں۔ اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اوکھلا کے بیشتر علاقے آتھرائزڈ نہیں ہیں۔ کئی بار ان علاقوں کو آتھرائز کرنے کی بات اٹھی لیکن فی الحال یہ ایک خواب ہے۔ عبدالرشید اغوان نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’’اوکھلا کےکئی علاقے ماحولیاتی اعتبار سے ’او‘ زون میں آتے ہیں۔ یعنی جب تک آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی اجازت نہیں مل جاتی اس وقت تک آتھرائزیشن ممکن نہیں۔‘‘ اوکھلا کے مسائل اور عوامی فلاح و بہبود پر گہری نظر رکھنے والے عبدالرشید نے یہ بھی بتایا کہ جماعت اسلامی ہند کے دفتر سے ابوالفضل انکلیو اور شاہین باغ تک کا علاقہ ’او‘ زون سے باہر آ چکا ہے اور موجودہ دہلی حکومت نے آتھرائزیشن کے لیے قدم بھی بڑھا دیا تھا۔ لیکن کسی فرد کے ذریعہ اس کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کر دی گئی کہ ان کے پاس ترقیاتی کاموں کے لیے پیسہ ہی نہیں ہے تو وہ علاقے کا ڈیولپمنٹ کیسے کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ عدالت نے پہلے علاقے میں ترقیاتی کام کرنے کی ہدایت دی۔ یہی سبب ہے کہ ابوالفضل انکلیو سے شاہین باغ تک کی گلیاں بھی پختہ سڑکوں میں بدل گئی ہیں۔
بہر حال، کچھ نہ کچھ مسائل تو ہر علاقے میں ہوتے ہیں پھر اوکھلا اس سے کس طرح بچا رہ سکتا ہے۔ لیکن بجلی و پانی لوگوں کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور اس کا حل تو جلد نکلنا ہی چاہیے۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ یہ سہولتیں مہیا ہونے کے بعد کیا یہاں کی آبادی میں مزید اضافہ نہیں ہو جائے گا! گویا کہ علاقوں کے آتھرائزیشن کے ساتھ ساتھ بھیڑ بھاڑ پر قابو پانے کے لیے بھی منصوبہ بندی انتہائی اہم ہے۔ علاوہ ازیں مجرمانہ واقعات پر قابو پانے کے لیے پولس انتظامیہ کا سخت ہونا بھی لازمی ہے، تبھی یہاں کے طلبا بے خوف ہو کر تعلیم حاصل کر سکیں گے، محققین حضرات تحقیقی کاوشوں کو انجام دے سکیں گے اور خاتون خانہ خود کو محفوظ تصور کر سکیں گی۔ ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ اوکھلا کے باشندے خود کو بدلیں اور گندگی سے پاک معاشرے کے قیام کو یقینی بنائیں۔ انھیں ایسا کرنا ہی ہوگا کیونکہ اپنے اس عمل کے ذریعہ وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اوکھلا آج بھی ’اہل شوق‘ کی بستی ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Sep 2017, 10:51 PM