شہرنامہ — دہلی: مسجد سے مینار کا رشتہ
کچھ دوستوں نے’قومی آواز ‘ کی ویب سائٹ کے کالم ’شہر نامہ‘ میں ’’مسجد اور مینار‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون کو پڑھ کر میری ہمّت افزائی کی اور یہ بھی یقین دلوایا کے انھیں مضمون پسند آیا- اب مصنف کو اور کیا چاہیےدل خوش ہو کر بلّیوں اچھلنے لگا- اس سے پہلے کے یہ تعریف سر چڑھ کر بولے، بہتر ہوگا کے اس ادھوری گفتگو کو آگے بڑھایا جائے جو دو ہفتے پہلے شروع کی گئی تھی-
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ بچپن سے یہ پڑھا اور سنا تھا کہ مسجد کے میناراذان دینے کے لئے ہوتے ہیں ٹھیک ویسے ہی جس طرح مندر کے اوپر شکھر ہوتا ہے- جس طرح کا نظام تعلیم ہمارے ملک پر مسلّط ہے اس میں سوال پوچھنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے اور ویسے بھی بڑوں کے سامنے بک بک کرنا اور ان سے جرح کرنا نہ صرف بد تمیزی میں شمار ہوتا ہےبلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہوتا ہے کے بچوں کی پرورش میں کہیں کوئی بڑی خامی رہ گئی ہے - بس اگر کبھی کسی سوال نے سر اٹھانے کی کوشش بھی کی تو نہایت سختی سےاس کا سر کچل دیا گیا، اور ہم سب مینارکی افادیت کے بارے میں حاصل کیے ہوئے اس علم کے سہارے بڑے ہو گئے-
اس عالم رنگ و بو میں نصف صدی سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد پہلی دہلی سے ساتویں دہلی تک کی سالم اور مخدوش عمارات کو سلسلےوار دیکھنے سمجھنے کا سلسلہ شروع کیا – دراصل یہ سلسلہ بچپن میں ہمارے والد کی پیش رفت پرشروع ہوا تھا اور بعد میں والد کی بیماری اور انتقال کے بعد منقطع ہو گیا۔پھر جب 2004 میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو میناروں، محرابوں اور گنبدوں کو ذرا زیادہ دھیان سے دیکھنا شروع کیا- کچھ تھوڑا بہت پڑھنا بھی شروع کیا اور یہ معلوم ہوا کے 1192ء میں قائم ہونے والی دہلی سلطنت میں قطب الدین ایبک نے 1198ء میں ایک مسجد کی تعمیر کا کام شروع کروایا جسے اس نے ’مسجد جامی‘ کا نام دیا اس مسجد کو کبّت الاسلام بمعنی اسلام کا خیمہ یا گنبد اسلام بھی کہا جاتا تھا – اس مسجد کی تعمیر میں 24 جین مندروں کے پتھروں کا استعمال کیا گیا اور اس وقت کے تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ مندروں کا انہدام کرکے ان کے پتھروں سے یہ مسجد تعمیر ہوئی – یہ حرکت کیوں کی گئی اس کی تفصیل آیندہ کسی موقع پردی جائے گی – یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انگریزوں نے اس مسجد کا نام بدل کر اسے مسجد قوّت الاسلام کہنا شروع کیا -
مسجد کا نام بدلنے کی سیاست کے بارے میں بھی پھر کبھی گفتگو ہوگی فی الحال تو مسجد کے ساتھ بنے مینارکے بارے میں بات چیت پر ہی اکتفا کریں گے ۔مینار 72.5 میٹریعنی 240 فٹ اونچا ہے اوپرتک پہنچنے کے لئے 379 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں ۔تعمیر کا کام 1199ء میں شروع ہوا-
کہا جاتا ہے کے یہ مینار آذان دینے کے لئے تعمیر ہوا تھا۔ذرا تصوّر کیجئے اس بیچارے موذن پر کیا گزرتی ہوگی جسے دن میں پانچ بار ان سیڑھیوں پر چڑھنا اور اترنا پڑتا ہوگا- ہفتے بھر میں گھٹنے جواب دے دیں گے- دن بھر میں مجموعی طور پر 363 میٹریعنی 1000 فٹ چڑھنا اور اتنا ہی اترنا۔ میں اس کیفیت سے واقف ہوں ابھی مہینہ بھر پہلے دولت آباد میں 465 سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں ، دھیرے دھیرے، رکتے رکاتے، آرام سے، مجھے کوئی جلدی نہیں تھی ، اوپر جا کر اذان بھی نہیں دینا تھی، اترنے کے گھنٹوں بعد تک پیر کانپا کیے اور کئی دن تک پٹھوں میں درد رہا۔ تو موذن بیچارے پر کیا بیتتی ہوگی ؟
اس بات کو ذہن میں رکھیے گا کیونکہ ہم لوٹ کر یہیں آئیں گے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب قطب الدین ایبک کی جامی مسجد بن کر تعمیر ہوئی تب تک مینار کی پہلی منزل ہی تعمیر ہو رہی تھی - سنہ 1210 میں جس وقت قطب الدین ایبک لاہور میں پولو کھیلتے ہوئے ایک حادثے کا شکار ہوا اس وقت تک مینار کی ایک ہی منزل مکمل ہوئی تھی ،باقی تین منزلیں شمس الدین التمش نے پوری کروائیں اور بعد میں فیروز تغلق نے چوتھی منزل، جو کافی خستہ حال ہو چکی تھی اتروا کراس کی جگہ دو منزلیں بنوا دیں۔
جس وقت مسجد اورمینار کی تعمیر ہوئی اس وقت مینار مسجد کے باہرتھا۔ سلطان علاؤ الدین خلجی کے دور حکومت میں مسجد کی توسیع اورعلائی دروازے کی تعمیر ہوئی اس کے بعد ہی مینار مسجد کے احاطے میں شامل ہوا۔ تو قطب الدین کے وقت سے لیکر علاؤ الدین خلجی کے وقت تک یعنی 100برس تک مینار مسجد کے احاطے کا حصّہ نہیں تھا -
قطب الدین ایبک کی بنائی ہوئی مسجد دہلی کی پہلی مسجد ہے، مملوک سلاطین کے بعد یکے بعد دیگرے خلجی ،تغلق ، لودھی سلاطین کا دور آیا ان سلاطین نے، ان کے امیروں نے، صوفیائے کرام کے مریدوں نے دہلی اور اس کے قرب وجوار میں کچھ نہیں تو سیکڑوں چھوٹی اور بڑی مساجد تعمیر کروائیں ، فیروزتغلق کے وزیرخان جہاں مقبول جونا شاہ تلنگانی نے ہی چار عظیم الشان مساجد تعمیر کروائیں، بیگم پور،کھڑکی،کلاں مسجد اوربستی نظام الدین کی جامی مسجد اس کے علاوہ اس نے کوٹلہ فیروزشاہ ، کالو سرائےاور جس جگہ بعد میں شاہجہاں کے دور میں کابلی دروازہ کی تعمیر ہوئی وہاں بھی مساجد کی تعمیر کی ۔
ان مساجد کے علاوہ درگاہ نظام الدین اولیاء سے متصل خضر خان کی مسجد، سیری کے پا س محمدی مسجد، لاڈو سرائے کے پاس مڑھی مسجد، حوض خاص مارکیٹ کے پاس نیلی مسجد ، تغلق آباد کی مسجد، لودھی گارڈن کی مسجد، وزیرآباد کی مسجد ، شیخ فضل اللہ کی مسجد جسے جمالی کمالی بھی کہا جاتا ہے، شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ مسجد قلعہ کہنہ، اکبر کے دور میں تعمیر ہوئی مسجد عبد النبی اور متعدد دیگر مساجد، جن کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی، تعمیرکی گئیں۔
واللہ اعلم آپ نے ان میں سے کتنی دیکھیں ہیں مگر آج بھی ان میں سے بہت سی آثار قدیمہ کے تحفّظ میں ہیں اور قرون وسطی کے فن تعمیر کے نادر آثاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ اگر ان مساجد کو غور سے دیکھیں تو آپ پائیں گے کہ ان میں سے کسی میں بھی مینار نہیں ہیں! دہلی کی وہ پہلی مسجد جس میں اس طرح کے مینار ہیں جن پر چڑھ کر آذان دی جا سکتی ہے اس کی تعمیر شاہجہاں نے کروائی اور اسے مسجد جہاں نامہ کا نام دیا، ہم اسے جامع مسجد کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ خیال کہ کم از کم دہلی میں مینار والی پہلی مسجد دہلی کی جامع مسجد ہے ،مجھے اس وقت آیا جب چند برس قبل میں نیشنل ا سکول آف ڈرامہ کے کچھ طالب علموں کوشاہجہان آباد کی جامع مسجد دکھانے لے کر گیا تھا۔
قطب مینار کا ذکر کرتے وقت میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کے ہم لوٹ کر وہاں جائیں گے، اب وہ وقت آ گیا ہے۔ آج سےتقریباً 60 برس پہلے ہم سب قطب مینار گئے اس زمانے میں اوپر تک جانے کی اجازت تھی۔ ہمارے ساتھ ہماری ایک عدد بھاری بھرکم چچی تھیں جنہوں نے اوپر جانے سے انکار کر دیا ہم سارے بچےچچا جان کے ساتھ اوپر گئے اورہم لوگوں نے ہر منزل پر پہنچ کر چچی جان کو بہت آوازیں دیں مگر انہوں نے ایک بار بھی ہماری طرف سر اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ کیا ہماری آواز ان تک نہیں پہنچ رہی تھی ؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو موذن کی آواز زمین پر کیسے پہنچتی ہوگی؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کا موقع اس دن ہاتھ لگا جب میں نیشنل ا سکول آف ڈرامہ کے طالب علموں کو جامع مسجد دکھانے لے کر گیا ۔ سب سے زیادہ شور کرنے والے چار لڑکوں کو میں نے ٹکٹ خرید کر دئیے اور ان سے کہاکہ مینار پر چڑھ جاؤ اور وہاں پہنچ کر ہمیں آواز دو ۔ ہم باقی لوگ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے ،آدھے گھنٹے بعد چاروں واپس لوٹے، چیختےچیختے ان کے گلے بیٹھ گئے تھے مگر ہم میں سے کسی نے بھی ا ن کی آواز نہیں سنی۔
ایسا کیوں ہوا ؟ مینارو مسجد اور مینارو موذن کا کیا رشتہ ہے اس کے بارے میں اس مضمون کی آخری قسط میں 15 دن کے بعد غور کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Aug 2017, 9:50 AM