لکھنؤ: مغل صاحبہ کا امامباڑہ فنی شاہکار کا بہترین نمونہ
لکھنؤ اپنے دامن میں سیکڑوں عمارتوں کو سمیٹے ہوئے ہے لیکن کبھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی، اب سیکڑوں میں بھی باقی نہیں ہے، جو کچھ بچا ہے اسکو سرکاری اہلکار اور وقف کے نکمے ذمہ دار لوٹ رہے ہیں۔
لکھنؤ کی شاہی عمارتوں کی تاریخ دلچسپ اور عبرتناک بھی ہے۔ نوابوں، بادشاہوں، ملکہ اور خواجہ سراؤں کی تعمیر کردہ عمارتوں کو دیکھنے کے دوران اب درد ہوتا ہے۔ ماضی کی چمک دمک، شاندار انتظامات اور حال کی کسمپرسی کا موازنہ کیا جائے تو سوائے اذیت کے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
اودھ اور خصوصی طور سے شہر لکھنؤ میں شاہی دور میں جس طرح سے عالیشان اور نفیس عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ،اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے مگر انگریزوں کی لوٹ مار اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لٹیروں کی حرکتوں نے ان عمارات کو تہس نہس کردیا۔ غدر کے ہنگام میں شیشہ آلات اور دیگر قیمتی اشیاء کو کمپنی بہادر کے سپاہیوں نے اپنی جیبوں میں ٹھونسا اور چلتے بنے۔ جب سے اب تک سوائے تباہی و بربادی کے کچھ بچا نہیں ہے۔
تاریخ کے سنہری صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھئے تو دل ٹوٹے گا اور ذہن افسردہ ہوجائے گا، نادر ونایاب سامان جس کی مثال مغربی ممالک کے علاوہ کہیں نہیں ملتی ان اشیاء کی لوٹ مارچشم زدن میں ہو گئی۔ امامباڑے،مسجدیں،محل،عمارتیں اور قلعہ مسمار ہوئے،ان کا سامان غائب کیا گیا اور لوٹ کے اس شروع ہوئے سلسلہ میں اپنے بھی شریک ہوئے۔ شاندار اور بے مثال عمارتوں کی لوٹ کھسوٹ میں آزاد ہندوستان کی حکومتوں اور ان کے متعصب افسر شاہوں نیز ان کے حاشیہ برداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،الغرض جو گوروں کی فوج سے بچ گیا اس کو ہم کالوں کے ہجوموں نے ڈٹ کر لوٹا۔
لکھنؤ اپنے دامن میں سیکڑوں عمارتوں کو سمیٹے ہوئے ہے لیکن کبھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی ،اب سیکڑوں میں بھی باقی نہیں ہے، جو کچھ بچا ہے اسکو سرکاری اہلکار اور وقف کے نکمے ذمہ داران لوٹ رہے ہیں۔
آج ہم آپ کو شہر لکھنؤ کے قدیمی محلہ وزیر باغ کے ایک شاندار امامباڑے کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کریں گے۔
مغل صاحبہ کا امامباڑا اپنے فن تعمیر اور اسٹوکو ورک کے لئے مشہور ہے مگر یہاں بھی انتظامیہ کا لا پرواہی کادور جاری رہا،یہاں ناجائز قبضوں کی بھرمار ہے،خوبصورت حوض سوکھا پڑا ہے،امامباڑے کے صحن کو بچے اور بڑے کرکٹ اور گلی ڈنڈا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔عمارت اندر اور باہر سے شاندار ہے،محکمہ آثار قدیمہ نے ترس کھا کر کچھ حصوں کی مرمت کاری کرا دی، مگر یہ قدم ناکافی ہے۔
اودھ کے تیسرے بادشاہ محمدعلی شاہ(1837-1842) کی بیٹی فخرالنسا، امت الصغرا نے اس شاندار عمارت کو تعمیر کروایا تھا۔ ان کے شوہر مجاہد الدولہ فخر الدین سیف الملک زین العابدین خاں جلاوت جنگ تھے۔ جو اپنی خوبصورتی اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ شاہی سواری جب نکلتی تو راستے بند ہوتے اور سڑک پر لوگ ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ لیکن ان کا دل نہیں لگا، کلکتہ کے بعد عراق چلے گئے اور وہیں زندگی کے آخری ایام گزارے۔
مغل صاحبہ کے امامباڑے کی شان عمارت کے اعلی دروازے تھے جو اب ناجائز قبضوں کی وجہ سے ٹوٹ چکے ہیں اندر کے حصوں میں رہنے والوں نے بے تکی عمارتیں کھڑی کر لی ہیں۔
ایک خوبصورت مسجد ہے جو کسی زمانے میں قبضوں سے پاک صاف تھی اس کو بھی ناجائز قبضہ داروں نے گھیر لیا ہے اور اس کا صحن تنگ ہو چکا ہے۔
مورخ آغا مہدی کا کہنا ہے کہ شہزادی صاحبہ اس امامباڑے کو حسین آباد کے شاہی امامباڑے کی طرح سجانا چاہتی تھیں۔ امامباڑے میں جھاڑ، فانوس اور شیشہ آلات سے اس کی رونق بڑھانا چاہتی تھیں مگر شہزادی کو موت نے مہلت نہیں دی۔
امامباڑہ چونکہ وزیر باغ میں واقع ہے جو مغل صاحبہ کی ماں کے نام پرآباد ہے۔ ایک زمانے میں اس محلہ میں بہت ہریالی ہوا کرتی تھی۔ امامباڑے کی خوبصورتی قابل دید تھی۔
بلند چھت اور بڑے دروازوں والی اس عمارت کا منبر رسولﷺ بھی اپنی شناخت رکھتا ہے۔ لکھنؤ کےدو امامباڑوں کے منبر شاندار اور بلند ہیں۔ ایک حسین آباد کا امام باڑہ اور دوسرا مغل صاحبہ کا امام باڑہ اپنے خوبصورت منبروں کے لئے بھی مشہور ہے۔
اس امامباڑے کے باہر ایک نوبت خانہ بھی تھا۔ چونکہ سرکار یا وقف بورڈ کو اس عمارت سے کچھ ملتا نہیں ہے اس لئے سیاحت کے نقشہ میں عمارت کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور اسی لئے یہاں سیاح نہیں آتے ہیں اور نہ ہی اس امامباڑے کو ریاستی حکومت نے اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM