آہ! کہاں کھو گیا ہمارا لکھنؤ



لکھنؤ کا مشہور ومقبول رومی درواہ (گیٹی ایمیج)
لکھنؤ کا مشہور ومقبول رومی درواہ (گیٹی ایمیج)
user

حسین افسر

دنیا کے حسین ترین ، مہذب ، نفیس اور شاندار شہروں کی صف میں لکھنؤ کو جو حیثیت پہلے حاصل تھی اب ندارد ہے۔ اس تاریخی شہر کو غدر کا ہنگام ، جمہوری نظام کی بد نظمی اورسیاسی گورکھ دھندے کھا گئے ۔تہذیب کو بد تہذیبوں نے نگل لیا ، پہلے آپ اور پہلے آپ کی دلکش ادا نے پہلے ہم اور پہلے ہم یا صرف ہم یا میں کے’ تمدن‘ نے تباہ کر دیا۔ زبان سے ، رہن سہن سے دسترخوان سے محفلوں اور نشست و برخاست میں آسمانی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تہذیب ،زبان،تمدن، نفاست اور زندگی کے ہر میدان میں تنزّلی پیدا ہوئی۔ دیگر شہروں سے بے پناہ ہجرت نے شہر کی تاریخی اور جغرافیائی مطلع کو بھی متاثر کر دیا ۔ شاہی دور کی عالی شان عمارتیں اپنے میں سمٹ گئی ان کے لق ودق میدان چھوٹے ہو گئے اور ان پر اغیار کا قبضہ مسلسل جاری رہا۔ اہل ِ لکھنؤ کی کسمپرسی کا حکومتوں کے بد تہذیب، متعصب اور پھوہڑ افسران نے بھی خوب فائدہ اٹھایا ۔جی بھر کر لوٹا اور جو کسر رہ گئی وہ دوسروں کے ذریعہ پوری کروائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا معاشرہ تاریخی ، جغرافیائی اعتبار سے بھی متزلزل ہوا ۔شہروں کی تاریخ میں بد ترین تباہی اسی شہر لکھنؤ کو نصیب ہوئی جو ہر اعتبار سے بلندی پر تھا ۔

تاریخ کی کتاب ہو یا جغرافیا کا سبق ہم کو یہی بتاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اس شہر نے جو جھٹکے کھائے اس نے ایک سنہری دور کو بہت جلد تہہ و بالا کر دیا ۔ دنیا کے دیگر ممالک سے جو سیاح لکھنؤ کی خوبصورتی اور اس کے تاریخی وجود کو دیکھنے آتے ان کو اب بہت کچھ دیکھنے کے لئے نہیں ملتا ۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ کہیں کہیں سابقہ خوبصورتی کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر قدیم لکھنؤ اب نظر نہیں آتا۔افسوس ہے کہ اودھ خصوصی طور سے لکھنؤ اب وہ نہیں جو کتابوں اور چند فلموں میں نظر آتا تھا ۔

مشہور کتاب تاریخ لکھنؤ میں مصنف آغا مہدی نے لکھنؤ کی جو منظر کشی کی قابل ذکر ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’برات میں دولہا، چمن میں گُل، پھول میں خوشبو،چراغ میں لو، جسم میں روح ، آنکھ میں نور،دل میں سرور، سیپی میں موتی ، ناؤ میں لنگر کی جو شان ہوتی ہے وہی حیثیت شہر بن کر صوبے میں زمین لکھنؤ کی تھی ۔عہد ِ نوابی اور شاہی میں شہر کی کیا شان تھی۔ یہاں کی گلیوں میں کتنی رونق اور بازاروں میں چہل پہل ہوگی۔ آزادی کے متوالے اور دیسی حکومت کے خواہاں کہاں کہاں رہتے تھے۔ صاحبانِ کمال کی لا تعداد ڈیوڑھیاں تھی‘‘ ۔

اب نا شاہ رہے اور نہ شاہی صورتحال بد سے بدتر ہے موجودہ دور کے سیاست دانوں کو ماضی سے نفرت ہے ۔وہ ایک نئی تاریخ اور ایک نیا جغرافیا گڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اتر پردیش کی سابقہ اکھیلیش سرکار نے پرانے لکھنؤ کی تزین کاری کا جو سیکڑوں کروڑ روپئے کا منصوبہ بنایا تھا اس کی حقیقت اب کھل رہی ہے ۔ حسین آباد ٹرسٹ کی املاک کو ہڑپ کرکے سڑکوں کو چوڑا کیا گیاآبادیوں کو نیچا کیا گیا اس نے مکینوں کے گھروں میں پانی بھرنے کانظارہ پیش کیا ۔ وقف کی پارکوں کو سڑکوں میں ملا دیا اور ہریالی کو تباہ و برباد کر دیا ۔ تزین کاری میں ٹھیکے داروں اور مقامی سیاسی لیڈروں نے جم کر لوٹ مچائی اس کے نتیجے میں چند ہی مہینے میں سڑکیں دھنسنا شروع ہو گئیں۔

اوقاف کی تباہی پہلے سے ہی جاری تھی اب یوگی سرکار میں مزید بربادی ہو رہی ہے ۔حسین آباد ٹرسٹ ایک ایسا ٹرسٹ ہے جس کی روزانہ آمدنی لاکھوں میں ہے دور دراز کے سیاح شاہی عمارتوں کو دیکھنے آتے ہیں اور اپنا منھ پیٹ کر چلے جاتے ہیں۔ سرکاری حکام وقف پر حاوی ہیں ۔صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے کچھ بڑے اوقاف میں حسین آباد اینڈ الائڈ ٹرسٹ کی بھی گنتی ہے لیکن شاہی دور کے اثاثہ جات کی فہرست تک موجود نہیں ہے ۔ ٹرسٹ کے ذمہ داران سے آر ٹی آئی کے ذریعہ جب املاک کھیت،کھلیان، فصلوں اور نادر و نایاب سامان کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ۔

آصف الدولہ سے لے کر واجد علی شاہ تک کسی بھی سامان کی کوئی بھی تفصیل ٹرسٹ اور سرکار مہیا نہیں کراتی ہے۔ یہ سچ ہے 1857ء کے غدر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں نے خوب لوٹ مار کی تھی لیکن اس کے باوجود مورخین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بے پناہ سامان کی لوٹ مار کے باوجود شاہی توشہ خانوں میںخاصہ سامان بچ گیا تھا ۔ ضرورت ہے کہ موجودہ مودی اوریوگی حکومت حسین آباد ٹرسٹ کی املاک پر ایک وائٹ پیپر جاری کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دیسی اور ودیسی لٹیروں نے کیا کیا لوٹا تھا ۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اودھ کا زریں دور کس طرح تنزلی میں تبدیل ہوا ۔ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ مختلف نوعیت کے شاہی خانوادے اور ان سے متعلق تنظیمیں بھی اس موضوع پر گہری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے متعدد شاہی وثیقہ خوار ہیں۔شاہی حکمرانوں نے جس شہر اور خطے کو مغربی ممالک کی طرز پر بھی فروغ دینے کی کوشش کی تھی،اسکی رفتار نے بہت جلد ہی دم توڑ دیا۔مغربی ممالک کے عوام اپنے آثار قدیمہ کو محفوظ رکھنے،انکو سجانے ۔سنوارنے میں گہری دلچپی رکھتے ہیں مگر ہمارے یہاں زبانی دعووں سے زیادہ کوئی آگے نہیں بڑھتا۔شہر کی محفوظ عمارتوں کی فہرست پر نظر دوڑائیے اور پھر ان املاک کا جائزہ لیجئے حقیقت نہ صرف شرم ناک ہے بلکہ اذیت ناک بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Aug 2017, 9:22 AM