’ماہرین کی رائے کو نظر انداز کر کے صنعت کاروں کو بینک کھولنے کی اجازت دی گئی‘

رگھورام راجن نے کہا کہ صنعتی گروپوں کو بینکنگ شعبہ میں لانے کے لئے آر بی آئی نے جس انٹرنل ورکنگ گروپ کی تجویز کو منظوری دی ہے، اس میں کئی اقتصادیات کے ماہرین کی رائے اس کے برخلاف تھی۔

 رگھورام راجن / تصویر آئی اے این ایس
رگھورام راجن / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھورام راجن اور سابق ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کا کہنا ہے کہ حکومت اور مرکزی بینک نے بڑے صنعت کاروں کو بینک کھولنے کا لائسنس دیتے وقت ماہرین کی صلاح کو نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی گروپوں کو بینکنگ شعبہ میں لانے کے لئے آر بی آئی نے جس انٹرنل ورکنگ گروپ کی تجویز کو منظوری دی ہے، اس میں کئی اقتصادیات کے ماہرین کی رائے اس کے بر خلاف تھی۔

انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق رگھو رام راجن نے آر بی آئی کے اس قدم پر کہا ہے کہ وہ تمام ماہرین جو انٹرنل ورکنگ گروپ سے وابستہ تھے، ان میں سے ایک کو چھوڑ کر تمام کی رائے یہی تھی کہ بڑے صنعت کاروں کو بینک کھولنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ صنعت کاروں کے بینکنگ کے شعبہ میں آنے کے بعد قرض بڑھیں گے اور یہ کافی خطرناک ثابت ہوگا۔ راجن کے مطابق اس سے معاشی اور سیاسی قوتوں کا صنعتی گھرانوں کے مابین توازن گڑبڑا جائے گا۔


خیال رہے کہ ورکنگ گروپ نے گزشتہ ہفتہ اپنی رپورٹ جاری کی تھی، جس میں صرف ایک کو چھوڑ کر تمام ماہرین کی رائے تھی کہ کارپوریٹ ہاؤسز کو بینکنگ شعبہ میں آنے کی جازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس گروپ کی قیادت کرنے والے پی کے موہنتی نے ماہرین کی طرف سے درج کرائے گئے اعتراضات کا ذکر تجویز میں کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صنعتی گھرانے اپنے کاروبار کو غیر ضروری قرض دے سکتے ہیں یا پھر قرض دینے کے معاملوں میں اپنے نزدیکی کاروباری ساتھیوں کی حمایت کر سکتے ہیں۔

تجویز پر ماہرین نے کہا تھا کہ یہ صنعتی گھرانے تیزی سے اپنا کاروبار بڑھا رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ قرض لے کر املاک خرید سکتے ہیں۔ ایسا ہونے پر بینکنگ نظام کو خطر لاحق ہو سکتا ہے۔ رگھورام راجن اور ویرل آچاریہ نے مشترکہ بیان جاری کر کے کہا ہے کہ ’‘جب صنعتی گھرانوں کو قرض درکار ہوگا تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے قائم کیے گئے بینک سے قرض لے لیں گے۔ ماضی میں ایسے قرض کے تجربات بہتر نہیں ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کوئی بینک ایسے حالات میں معیاری قرض کس طرح فراہم کر سکتا ہے جبکہ اس کا کنٹرول قرض لینے والے کے ہاتھ میں ہے!’‘


اس معاملہ پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’کرونولوجی سمجھیے، پہلے بڑی کمپنیوں کے لئے قرض معافی کی گئی۔ پھر ان کمپنیوں کے لئے ٹیکس میں راحت دی گئی۔ اب لوگوں کی بچت انہی کمپنیوں کی طرف سے قائم کیے گئے بینکوں میں سیدھے بھیجی جائے گی۔‘‘ راہل گاندھی نے ٹوئٹ کے ساتھ ’سوٹ بوٹ کی سرکار‘ ہیش ٹیگ کا استعمال کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔