پی ایم مودی IL&FS کو بچانے کے لیے LIC اور SBI کو برباد کرنے پر آمادہ: کانگریس

کانگریس نے 29 ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’معلوم ہوتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر مالیات ارون جیٹلی کی جوڑی نے ملک کی اقتصادی خدمات کے شعبہ کو برباد کرنے کا عزم کر لیا ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ملک کی مودی حکومت مالی گھوٹالوں پر پردہ داری اور سرکاری خزانے کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگانے میں ماہر ہو چکی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہے آئی ایل اینڈ ایف ایس پر بقایہ 91 ہزار کروڑ کا قرض۔ اور یہ ثبوت ہے کہ کس طرح اس حکومت نے ملک کو مالی بدنظمی کا شکار بنا رکھا ہے۔ ہفتہ کے روز کانگریس نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کر کے یہ الزامات عائد کیے ہیں۔ کانگریس ترجمان پروفیسر گورو ولبھ نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’آخر کیوں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر مالیات ارون جیٹلی آئی ایل اینڈ ایف ایس کو بچانے کے لیے لائف انشورنس کارپوریشن (ایل آئی سی) اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو برباد کرنے پر آمادہ ہیں؟‘

پروفیسر گورو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے وہئے کہا کہ ’’گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران مودی-جیٹلی کی جوڑی نے سلسلہ وار طریقے سے ملک کے اقتصادی شعبہ کو برباد کرنے کا کام کیا ہے۔ چاہے وہ بینکوں کے این پی اے میں 400 فیصد کے اضافہ کا معاملہ ہو، ایک لاکھ کروڑ روپے سے اوپر کے بینک لوٹ گھوٹالے ہوں، عام لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچت کو ختم کرنا ہو اور ایل آئی سی کے کروڑوں شیئر ہولڈروں کی فیملی سیکورٹی اور بچت کو داؤ پر لگانا ہو۔‘‘

گورو ولبھ نے بتایا کہ ’’تازہ معاملہ انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فائنانشیل سروسز (آئی ایل اینڈ ایف ایس) لمیٹڈ کا ہے۔ اس کمپنی میں 60 فیصد حصہ داری پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹر کی ہے۔ اس 60 فیصد میں سے 36 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری اور 39.43 فیصد شراکت داری سرکاری بینکوں اور ایل آئی سی جیسی کمپنیوں کی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اپنے مالی گناہوں کو چھپانے کے لیے مودی حکومت کا طریقہ کار یہی رہا ہے کہ فائدہ والی سرکاری کمپنیوں کے پیسے سے ڈوبتی ہوئی کارپوریٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جائے اور کروڑوں عام لوگوں کی بچت کو داؤ پر لگا دیا جائے۔‘‘ پروفیسر گورو نے او این جی سی کا حوالہ دیتے وہئے کہا کہ کس طرح گجرات ریاستی بجلی کارپوریشن (جی ایس پی سی) کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے او این جی سی کو استعمال کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ نقصان میں چل رہی آئی ڈی بی آئی کو فائدہ پہنچانےکے لیے ایل آئی سی کا استعمال کیا گیا اور اب 60 فیصد پرائیویٹ حصہ داری والے آئی ایل اینڈ ایف ایس کو بچانے کے لیے ایل آئی سی اور ایس بی آئی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔

کیا یہ ’ہندوستان کے لیہمین برادرس‘ کی شروعات ہے؟

  • آئی ایل اینڈ ایف ایس پر اس وقت 91 ہزار کروڑ سے زیادہ کا قرض ہے جو اسے سرکاری اور پرائیویٹ بینکوں کو ادا کرنا ہے۔
  • مودی حکومت کے دوران گزشتہ چار سال میں آئی ایل اینڈ ایف ایس پر قرض میں 42420 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔
  • اس کا حساب لگائیں تو آئی ایل اینڈ ایف ایس پر ہر مہینے 900 کروڑ روپے کا قرض بڑھا ہے۔
  • اگر طویل مدت اور چھوٹی مدت دونوں کے قرض کو جوڑا جائے تو قرض کی رقم 120000 کروڑ سے زیادہ ہوتا ہے۔

پروفیسر ولبھ نے بتایا کہ ’’مودی حکومت کے اقتصادی بدانتظامی کے سبب آئی ایل اینڈ ایف ایس بحران سے گھِرا ہوا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اس کے پاس اپنا قرض اتارنا تو دور، اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے تک کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔‘‘ آئی ایل اینڈ ایف ایس کے اس پورے معاملے پر انھوں نے کہا کہ:

  • موجودہ مالی سال 18-2017 میں آئی ایل اینڈ ایف ایس کی دینداری 37089 کروڑ پہنچ گئی ہے جب کہ اس کے پاس صرف 31259 کروڑ کی ملکیت یعنی اسیٹس ہیں۔
  • اس کا مطلب ہے کہ آئی ایل اینڈ ایف ایس کے پاس پیسے کی زبردست قلت ہے۔
  • وعدے کے مطابق ادا کیے جانے والے قرض یا اس کی سود کو بھرنا مشکل ہے۔
  • ایل آئی سی اور ایس بی آئی کو 7500 کروڑ دینے کے لیے مجبور کر کے مودی حکومت آئی ایل اینڈ ایف ایس کے زخم پر مرہم لگا رہی ہے جبکہ ضرورت اس کے آپریشن کی ہے۔
  • آئی ایل اینڈ ایف ایس کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایل آئی سی اور ایس بی آئی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔

پروفیسر ولبھ کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے ایسے فیصلے اقتصادی نظام پر بے حد منفی اثر ڈالیں گے۔ آئی ایل اینڈ ایف ایس کے موجودہ حال میں پہنچنے کے بارے میں انھوں نے الزامات عائد کیے ہیں کہ:

  • مالی سال 18-2017 میں آئی ایل اینڈ ایف ایس کو 293 کروڑ کے منافع میں 2395 کروڑ کا نقصان ہوا۔
  • اس سے اس کے نیٹ پرافٹ یعنی اصل منافع میں 900 فیصد کی گراوٹ آئی اور یہ مئی 208 میں 2688 کروڑ پہنچ گیا۔
  • آئی ایل اینڈ ایف ایس نے اپنے ڈیپازٹ، قرض، ڈیبنچر اور کمرشیل پیپر یعنی ہنڈیوں کو وقت پر نہیں ادا کر پایا۔
  • ریٹنگ ایجنسیوں نے کمپنی اور اس سے منسلک دوسری کمپنیوں کو کباڑ کمپنیوں کی فہرست میں ڈال دیا۔
  • آئی ایل اینڈ ایف ایس مینجمنٹ نے اپنے پسندیدہ معاونین کو ہی ٹھیکے دیے۔
  • مینجمنٹ کمپنی کے کاروبار اپنی پرائیویٹ مشینریوں میں لے جا کر آئی ایل اینڈ ایف ایس کا خزانہ خالی کر رہے ہیں، جس سے شیئر ہولڈروں اور قرض دینے والے بینکوں اور مالی اداروں کو چونا لگ رہا ہے۔

پروفیسر ولبھ نے مزید ایک الزام عائد کیا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ایک پورے شہر کو آئی ایل اینڈ ایف ایس کے حوالے کر دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے اپنے دور اقتدر میں نریندر مودی نے گجرات انٹرنیشنل فائنانس اور ٹیک سٹی گفٹ سٹی کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ اس کے لیے سرکار نے 886 ایکڑ زمین صرف ایک روپے کی لیز پر دے دی۔ اس زمین کو گروی رکھ کر الگ الگ بینکوں سے 1100 کروڑ روپے حاصل کیے گئے۔ اور پھر آئی ایل اینڈ ایف ایس کو اسے بنانے کا ذمہ دے دیا گیا۔ اس میں گجرات حکومت نے صرف 2.5 کروڑ روپے میں آئی ایل اینڈ ایف ایس کو اس کی نصف شراکت داری دے دی۔ انھوں نے کہا کہ اس زمین کو پوری طرح پروجیکٹ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔

پروفیسر ولبھ نے پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ گفٹ سٹی کو آئی ایل اینڈ ایف ایس کے حوالے کرنے کے بعد بھی اس نے پروجیکٹ کنسلٹنسی تک نہیں دی۔ انھوں نے بتایا کہ گجرات حکومت نے پروجیکٹ تیار کرنے کے لیے آئی ایل اینڈ ایف ایس کو 700 کروڑ روپے سکسیس فیس اور 20 لاکھ روپے ماہانہ مینجمنٹ فیس دینا شروع کیا۔ آئی ایل اینڈ ایف ایس نے یہی کام ایک پرائیویٹ کمپنی کو 400 کروڑ میں دے دیا۔

کانگریس نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے کچھ سوال پوچھے ہیں جو اس طرح ہیں:

  • مودی حکومت ایک ایسی کمپنی کو بچانے کے لیے ایل آئی سی کے 38 کروڑ شیئر ہولڈروں اور ایس بی آئی کے کروڑوں صارفین کی جمع پونجی کیوں داؤ پر لگا رہی ہے، جس کے مینجمنٹ نے ہزاروں کروڑ کی بدانتظامی کی ہے؟
  • دو مہینے پہلے ہی ایل آئی سی سے 13 ہزار کروڑ روپے دلوا کر آئی ڈی بی آئی بینک کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن آئی ایل اینڈ ایف ایس کو بچانے میں 36 فیصد شراکت داری والے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بچایا جا رہا ہے؟
  • آئی ایل اینڈ ایف ایس میں ایل آئی سی اور سرکاری بینکوں کی تقریباً 40 فیصد شراکت داری ہے، پھر بھی اس کی بدانتظامی پر ابھی تک سی اے جی یا سی وی سی کی نظر کیوں نہیں پڑی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Sep 2018, 7:07 PM