بجٹ سفارشات میں ایک مرتبہ پھر عوام کی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا...سید خرم رضا
گزشتہ 10 سالوں سے حکومت عوام کے سامنے جو معاشی صورتحال پیش کر رہی تھی اس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ حکومت معاشی طور پر مستحکم ہے اور ان کی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی
مرکزی حکومت نے بجٹ سفارشات بھی پیش کر دی ہیں اور اس پر بحث بھی چل رہی ہے۔ قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بھی اس پر خطاب کر دیا ہے اور ان کے خطاب کی خوب چرچا ہو رہی ہے۔ راہل گاندھی نے جو چکرویوہ کی مثال پیش کی ہے اور جس انداز میں انہوں نے ذات کی مردم شماری کی بات کی ہے اس نے وزیر خزانہ کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا کیونکہ انہوں نے ایک تصویر دکھا کر پوچھا تھا کہ اس میں جو لوگ دکھ رہے ہیں وہ کس ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ویسے تو ملک کی مالی صورتحال سے سب لوگ واقف ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو بجٹ سے بہت امیدیں رہتی ہیں۔ بجٹ سفارشات پیش کرتے ہوئے حکومت کے لئے بڑا مسئلہ رہتا ہے کے ایک جانب تو ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا دباؤ ہوتا ہے اور دوسری جانب عوام کی امیدیں کو پورا کرنے کا دباؤ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ عوام کی نظر میں غیر مقبول ہو اور یہیں سے اس کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ حکومت کی کیا معاشی ترجیحات ہونی چاہئے اس کو طے کرنے کے لئے عام طور پر بجٹ سفارشات ہی ہوتی ہیں۔
گزشتہ دس سالوں سے حکومت عوام کے سامنے جو معاشی صورتحال پیش کر رہی تھی اس سے عوام کو یہ امید بن گئی تھی کہ حکومت معاشی طور پر مستحکم ہے اور حکومت ان کی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور اسی وجہ سے لاکھ چاہتے ہوئے بھی وہ عوام کو راحت نہیں دے سکی۔ زراعت، تعلیم اور دفاع جیسے شعبے بھی اس کی بجٹ سفارشات میں ترجیح پر نہیں رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہے۔
حکومت کو جہاں کسانوں کو قانونی ایم ایس پی کا ان بجٹ سفارشات میں اعلان کرنا چاہئے تھا وہیں روزگار کے لئے کوئی ٹھوس اعلان کرنے کی ضرورت تھی لیکن معاشی صورتحال نے اس کی ان کو اجازت نہیں دی ۔ حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبہ میں کوئی نئی سفارش کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے آنے والے سالوں میں یہ شعبے کافی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس سب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ موجودہ مسائل کے فنڈس میں اضافہ کیا جا سکے۔
بغیر بیساکھیوں والی حکومت نے گزشتہ دس سالوں میں قومی معیشت کی ایسی صورتحال پیش کی تھی جس کے بعد یہ امید بن گئی تھی کہ حکومت کی اقتصادی صورتحال بہت اچھی ہے اور حکومت ان کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ جبکہ حقیقی معاشی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے کہ حکومت عوام کو کچھ بھی اضافی دے سکے جس کی وجہ سے موجود ہ بجٹ سفارشات سے عوام کو کچھ ملنے کے بجائے ان کو دینے پڑ سکتے ہیں۔ صرف عوام کو راحت دینے کی بات نہیں بلکہ حکومت نے انتخابات سے قبل جو سو دن کا پروگرام بنایا تھا اس کا بھی بجٹ سفارشات میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
اعتماد سے بھرے ہوئے حزب اختلاف نے جہاں اگنی پتھ منصوبہ کو ختم کرنے اور قانونی ایم ایس پی لاگو کرنے کی بات کہہ دی ہے وہیں ان کے پاس حکومت کے خلاف کئی مدے ہیں۔ حزب اختلاف نے یہ مدے اٹھا کر عوام میں جہاں اپنی جگہ بنائی ہے وہیں حکومت کی مقبولیت بھی کم نظر آ رہی ہے۔ بجٹ سفارشات میں اتحادی پارٹیوں کے صوبوں کو فنڈس دینے کا ذکر کر کے وزیر خزانہ نے خود پریشانیاں مول لے لی ہیں جس کی وجہ سے ان صوبوں کی ضرورت اور مرکزی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا احساس بڑھ گیا ہے۔
اتحادی صوبوں کو بجٹ سفارشات میں زیادہ فنڈ س دینے کے علاوہ موجودہ حکومت نے ملک کی اقتصادی صورتحال کی کل ملا کر صحیح تصویر پیش کی ہے صرف اس میں ترجیحات صحیح طے نہیں کی ہیں۔ اس میں نمایا طور پر روزگار، کسان اور مہنگائی کو ترجیح دینے کی ضرورت تھی۔ حکومت نے بجٹ سفارشات کے ذریعہ حکومت تو بچا لی ہے لیکن عوام کی ترجیحات کو ایک مرتبہ پھر کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔