کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف کا صرف کمپنیوں کو فائدہ، گاڑیوں کی قیمتیں نہیں ہوں گی کم!
مودی حکومت نے حال ہی میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ صارفین کو نہیں ملنے والا۔ ہاں، ممکن ہے اس سے بیرون ملکی سرمایہ کار ہندوستانی شیئر مارکیٹ سے ہاتھ نہ کھینچیں۔
مہندرا اینڈ مہندرا کے ڈائریکٹر پون گوینکا نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس شرحوں میں تخفیف کا فائدہ صارفین کو مل سکتا ہے۔ یعنی مہندرا اینڈ مہندرا کی گاڑیوں کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آنے والی ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے گوینکا نے کہا کہ ’’کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں تخفیف کے اعلان کے بعد سے ہی بات گرم ہے کہ اب آٹو کمپنیاں اپنی گاڑیوں کی قیمتیں گھٹانے کی حالت میں ہیں یا ایسا کرنا چاہتی ہیں، یہ ایک غلط سوچ ہے۔‘‘
گوینکا نے کہا کہ ’’حکومت نے جو فیصلہ لیا ہے وہ فوری طور پر کوئی راحت دینے والا نہیں ہے، بلکہ اس سے کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھ میں کچھ پیسہ بچے گا جسے وہ آنے والے دنوں میں سرمایہ کر سکتے ہیں اور اس سے پہیہ چلتا رہے گا۔ اس سے صنعتوں کو صلاحیت بڑھانے کا موقع ملے گا، جس سے روزگار پیدا ہوں گے، کوئی فوری حل موجودہ حالات سے نمٹنے کا اسے نہیں مانا جا سکتا۔‘‘ گوینکا نے مزید بتایا کہ ’’ٹیکس تخفیف سے جتنا بھی پیسہ بچتا ہے اسے پورا کا پورا گاڑیوں کی قیمت گھٹانے پر خرچ کر دیں تو بھی گاڑیوں کی قیمت میں نصف فیصد سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی کوئی کار اگر 8 لاکھ روپے کی ہے تو اس کی قیمت میں محض 3 ہزار روپے کی کمی آئے گی۔‘‘
گوینکا کا کہنا ہے کہ ’’کارپوریٹ ٹیکس تخفیف سے طلب نہیں بڑھنے والی، ویسے بھی مہندرا سمیت تمام آٹو کمپنیاں پہلے ہی تہواروں کو دھیان میں رکھتے ہوئے 3 سے 7 فیصد تک چھوٹ دے رہی ہیں۔ ایسے میں کسی اور تخفیف کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔‘‘ گوینکا کی اس صاف گوئی سے واضح ہے کہ ٹیکس تخفیف کا فائدہ صارفین کو نہیں ملنے والا اور اس سے ہونے والی بچت کو کمپنیاں اپنے پاس ہی رکھنے والی ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی ماروتی سوزوکی کے چیئرمین آر سی بھارگو کا بھی کہنا ہے کہ ٹیکس تخفیف بے حد معمولی ہے۔ اس سے ماروتی کی کاروں کی قیمت میں کوئی کمی نہیں ہونے والی۔ بجاج آٹو کے منیجنگ ڈائریکٹر راجیو بجاج بھی بھارگو اور گوینکا کی بات کی حمایت کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کسی گاڑی کی قیمت کم ہونے والی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر مالیات نے ہمیں صرف وہ پیسہ لوٹایا ہے جو ہم پہلے ہی تہواری پیشکش اور تشہیر پر خرچ کر چکے ہیں۔ اور یہ بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
تو پھر ٹیکس تخفیف سے ہونے والی بچت کو کمپنیاں کہاں خرچ کریں گی؟ کیا اس پیسے کو نئے پلانٹ لگانے یا سرمایہ کاری بڑھانے میں خرچ کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں نہ تو بھارگو اور نہ ہی گوینکا کوئی وعدہ کرتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ آٹو صنعت پہلے ہی اپنے پلانٹس میں ہر مہینے کچھ دنوں کے لیے کام بند کر رہی ہے کیونکہ بازار میں طلب ہے ہی نہیں۔ لیکن راجیو بجاج اشارہ دیتے ہیں کہ ان کی کمپنی ٹیکس تخفیف سے ہونے والی بچت کو الیکٹرک گاڑی بنانے کے لیے نئی تکنیک پر خرچ کر سکتی ہے۔
اب ایک بات تو صاف ہے کہ آٹو انڈسٹری اس بچت کا فائدہ نہ تو کنزیومر کو دے گی اور نہ ہی حال فی الحال نئی سرمایہ کاری میں خرچ کرے گی۔ یعنی اس بچت کو انڈسٹری دبا کر رکھے گی اور کسی اور وقت استعمال کرے گی۔
ٹاٹا اسٹیل نے اس ٹیکس تخفیف پر جو رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ میٹل صنعت اس بچت کا استعمال اپنا اکاؤنٹ سدھارنے اور بیلنس شیٹ کو قابو میں کرنے میں استعمال کرنے والا ہے۔ ٹاٹا اسٹیل کے گلوبل سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر ٹی وی نریندرن کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی اس پیسے کو اپنی بیلنس شیٹ بہتر کرنے میں استعمال کرے گی۔
دھیان رہے کہ بھلے ہی ملک کی سبھی بڑی میٹل کمپنیاں فائدے میں نظر آتی ہوں، لیکن ان کی بیلنس شیٹ میں اچھا خاصہ قرض بھی شامل ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ کمپنیاں اس بچت کو وہیں استعمال کرنے والی ہیں۔ ویسے بھی میٹل پرائس ان دنوں پہلے ہی کمزور ہے اور ٹیکس سے بچا پیسہ قیمت کم کرنے پر لگائے جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف فاسٹ مووِنگ کنزیومر گڈس یعنی ایف ایم سی جی سیکٹر کی 4 بڑی کمپنیاں ٹیکس تخفیف سے بچے پیسے کو اشتہار پر خرچ کرنے کی تیاری میں ہیں تاکہ فروخت بڑھ سکے۔ دھیان رہے کہ حال کے دنوں میں ایف ایم سی جی کمپنیوں نے اشتہاروں پر خرچ میں تخفیف کی ہے۔ لیکن کسی بھی کمپنی نے اس بچت کا فائدہ کنزیومر کو دینے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ ایک بات اور، زیادہ تر ایف ایم سی جی کمپنیاں قرض سے آزاد ہیں، ایسے میں وہ اس بچت کو اپنے شیئر ہولڈر میں ڈیویڈنڈ کی شکل میں بھی بانٹ سکتی ہیں۔
ایل اینڈ ٹی کے چیف ایگزیکٹیو افسر اور منیجنگ ڈائریکٹر ایس این سبرامنین نے ایک ٹی وی چینل سے بات چیت میں اس ٹیکس تخفیف کو ایک بڑا ٹیکس اصلاح قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ تین چار سال سے نجی سیکٹر کی سرمایہ کاری کافی کم ہوئی تھی، ایسے میں اس سے اسے فروغ ملے گا۔
اس کے علاوہ سیبی نے شیئر بائی بیک کے قوانین میں ترمیم کی ہے۔ ایسے میں ایل اینڈ ٹی جیسی کمپنیوں کا شیئر بائی بیک میں اس کا استعمال کر سکتی ہیں۔ سبرامنین کہتے ہیں کہ ’’بائی بینک ہمیشہ ایک اچھا متبادل ہوتا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ اپنے سرمایہ کار اور اس کے فائدے کا دھیان رکھتے ہیں۔ ہم نے پہلے اس کی کوشش کی تھی، لیکن کسی وجہ سے ایسا نہیں کر پائے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Sep 2019, 12:10 PM