مودی حکومت کا خزانہ خالی، 50 ہزار کروڑ کا قرض لےگی

گبر سنگھ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی سے کمائی گھٹتے ہی مودی حکومت کی حالت خستہ ہو گئی ہے۔ ہچکولے کھا رہی معیشت کو چلنے لائق بنانے اور سرکاری خرچ پورا کرنے کے لیے حکومت 50 ہزار کروڑ روپے قرض لے گی۔

تصویر نوجیون
تصویر نوجیون
user

قومی آواز بیورو

جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد خزانے میں لگاتار ہو رہی کمی مرکز کی مودی حکومت کے لیے فکر کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس سے یہ اندیشہ بھی بن گیا ہے کہ مالی سال 2017-18میں سرکاری خزانے کا خسارہ اپنے نشانے کو پار کر سکتا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے حکومت رواں مالی سال 2017-18 میں 50 ہزار کروڑ روپے قرض لے گی۔

حکومت نے بدھ کو اس سلسلے میں اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کی بقیہ مدت میں سرکاری خرچ کو پورا کرنے کے لیے مارکیٹ سے 50 ہزار کروڑ روپے سیکورٹیز (جی-ایس ای سی) جاری کرے گی۔ دراصل جی ایس ٹی کے نافذ ہونے میں بے شمار خامیوں اور پھر گجرات انتخابات میں ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے جی ایس ٹی شرح میں کی گئی تبدیلی کے بعد جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والے خزانہ میں لگاتار گراوٹ درج کی جا رہی ہے۔ نومبر ماہ میں تو جی ایس ٹی کلیکشن گر کر محض 80808 کروڑ روپے رہ گیا۔ کلیکشن میں اس گراوٹ کے بعد حکومت کے سامنے اپنا خرچ چلانے کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کا حل نکالنے کے لیے حکومت نے مالی سال 2018 میں مارکیٹ سے 50 ہزار کروڑ روپے کا اضافی قرض لینے کا اعلان کیا ہے۔

وزارت مالیات کا کہنا ہے کہ حکومت یہ قرض معینہ مدت والی سیکوریٹیز کے ذریعہ لے گی۔ اس کا براہ راست مطلب یہ ہوا کہ حکومت مالی سال 2018 کے لیے سرکاری خزانہ کو پہنچنے والے خسارے کے طے نشانہ جی ڈی پی کے 3.2 فیصد سے بھٹک سکتی ہے۔ قابل غور ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حکومت نے کل 3.72 لاکھ کروڑ روپے کا قرض لیا ہے۔ اب اضافی قرض لینا کسی بھی لحاظ سے معیشت اور مارکیٹ دونوں کے لیے ہی بہتر نہیں ہے۔

ایک ریسرچ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’’جی ایس ٹی کلیکشن میں لگاتار دوسرے مہینے گراوٹ درج کی گئی ہے اور یہ پانچ مہینے کے ذیلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ایسے میں قرض لے کر ہی خرچ کو پورا کرنا ہوگا۔‘‘ خرچ چلانے کے لیے حکومت کی طرف سے قرض لینے کا عام لوگوں پر بھی اثر ہونے کا امکان ہے۔ دراصل حکومت کے اس فیصلے سے جہاں بانڈ ییلڈ میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے وہیں شیئر بازار میں بھی اس کا برا اثر پڑے گا۔

بانڈ کا ییلڈ بڑھ جانے کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریزرو بینک شرح سود گھٹانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ اس سے سستا قرض ملنے کی عام لوگوں اور کارپوریٹ دونوں کی امیدوں کو جھٹکا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ قرض لینے کے اس فیصلے کا اثر اگلے عام بجٹ پر بھی پڑنے کا امکان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اضافی پیسوں کے لیے حکومت Disinvestment (لگائے گئے پیسوں کو واپس لینا) کا دائرہ بڑھائے اور انکم ٹیکس کی شرح میں کچھ کمی کی امید ختم ہو جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔