امیری کیسے بڑھتی ہے؟
جاپان سے ہندوستان نے بلٹ ٹرین کے لئے 90 ہزار کروڑ روپے قرض لئے۔ تو جاپان کسی جہاز میں نوٹ بھر کر بھارت تھوڑے ہی بھیج دےگا۔ جاپان اپنے کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک لیٹر لکھ دےگا ، جس میں لکھا ہوگا کہ جاپان نے ہندوستان کو 90 ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔ حکومت ہند اپنے ملک کے ریزرو بینک کو جاپان کا وہ خط دے دےگی ۔ ریزرو بینک ایک خط لکھ کر اس بینک کو دے گاجس میں حکومت ہند کا کھاتا ہے۔ فرض کیجئے اسٹیٹ بینک میں حکومت ہند کا کھاتا ہے۔ تو ریزرو بینک سے اسٹیٹ بینک میں ایک خط آئے گا کہ حکومت ہند کے کھاتے میں 90 ہزر کروڑ لکھ دیجئے۔ تو حکومت ہند یہ مان لےگی کہ اب اس کے پاس سرمایہ آ گیا ہے۔
اب حکومت اس سرمایہ کو لوہا کمپنیوں کو دے گی جن سے اسے ریل پٹریوں کے لئے لوہا خریدنا ہے۔ لوہا کمپنی اسے اپنے ملازمین کے کھاتے میں ڈالے گی۔ ملازمین اس سے کپڑا ، تعلیم ، طبی اور نقل و حمل کے ذرائع خریدے گا۔ کپڑا ، تعلیم، میڈیکل اور نقل و حمل کے ذرائع تو ملک میں بڑھے نہیں ،لیکن 90 ہزار کروڑ روپیہ بڑھ گیا ، جو بڑھ جاتا ہے اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ کپڑا، تعلیم ، طبی اور نقل و حمل کے ذرائع کی قیمت بڑھ جائے گی ساتھ میں دال ، سبزی ، مچھلی اور دودھ کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ اسی کو آپ کہیں گے کہ مہنگائی بڑھ گئی۔ یعنی بغیر مینوفیکچرنگ کو بڑھائے اگر آپ پیسہ بڑھائیں گے تو اس سے مہنگائی بڑھے گی۔
چلئے آگے چلتے ہیں۔ دال ، سبزی ، دودھ کے دام مہنگے ہو جائیں گے،مہنگا ئی کے سبب عوام کا شور مچانا جائز ہے۔ تب حکومت ان روپیوں سے دال، سبزی، مچھلی اور دودھ وغیرہ بیرونی ممالک سے برآمد کرے گی۔ جس کے سبب کسانوں کے ذریعہ پیدا کئے گئے دال ، سبزی، مچھلی اور دودھ وغیرہ کی قیمتیں گر جائیں گی ، کسان کے پاس دال ، سبزی ، مچھلی اور دودھ کی پیدا وار سے اب جو روپے آئیں گے اس سے اس کا گھر چلنا مشکل ہو جائے گا۔
کسان اپنے بچے کو پڑھا نہیں سکے گا، علاج نہیں کرا سکے گا۔ تو کسان گھر کو چلانے کے لئے قرض لے گا ۔ مہنگائی بڑھنے سے خرچ تو بڑھ گئے ہیں لیکن آمدنی نہیں بڑھی ، لہٰذا کسان خسارے میں آ جائے گااور وہ کسان قرض نہیں ادا کر پائے گا بالآخر کسان خود کشی کر نے پر مجبور ہو جائے گا۔ ہندوستانی معیشت ، کسانوں کے حق میں کام ہی نہیں کرتی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔