ہیلتھ انشورنس منصوبہ سب سے بڑا فراڈ !
عوام کی صحت کے نام پرحکومت انشورنس کمپنیوں کو ملائی اور غریب کو میٹھا زہر دے رہی ہے۔
جملوں کی سرکار نے بجٹ 2018میں کئی نئے جملے دئے لیکن اس بجٹ میں جو سب سے بڑا جملہ دیا ہے وہ صحت کے شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ پوری حکومت ان بجٹ سفاراشات میں جس چیز کو سب سے زیادہ بیچنے کی کوشش کر رہی ہے وہ ہے 10کروڑ غریب عوام کے لئے 5لاکھ کا صحت بیمہ (ہیلتھ انشورنس)۔ جس کو دنیا کا سب سے بڑا صحت منصوبہ بتاکر پیش کیا جا رہا ہے اس منصوبہ کو یا تو صحت کے شعبہ کا اب تک کا سب سے بڑا فراڈ کہا جا سکتا ہے یا پھر یہ لوگوں کی صحت کے نام پر انشورنس کمپنیوں کو مالی مدد پہنچانےوالا گھوٹالہ۔ اس منصوبہ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان میں لوگوں کا علاج بہت مہنگا ہونے والا ہے یا یو ں کہا جائے کہ آنے والے سالوں میں اگر اس میں ضروری ترمیمات نہیں کی گئیں تو پھر لوگ بیماری سے ٹھیک ہونے کی نہیں بلکہ اپنے مرنے کی دعا مانگیں گے کیونکہ اگر وہ ٹھیک ہو بھی گئے تو معاشی طور پر ان کی حالت لا علاج ہو جائے گی۔
سب سے پہلے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے ،دو سال قبل بھی جیٹلی نے اس منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور اس میں ایک لاکھ روپے کی بات کہی گئی تھی لیکن اب تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔دوسرا یہ کہ ایسا منصوبہ ’’راشٹریہ سواستھ بیمہ یوجنا‘‘ کے نام سے لیبر محکمہ کے تحت تھا جس میں 33ہزار کا بیمہ تھا اور اس کا پریمیم فی خاندان سالانہ پانچ سو سے سا ت سو کے بیچ تھا۔پھر اس منصوبہ کو وزارت لیبر سے لے کروزارت صحت کومنتقل کر دیا گیا ۔ یعنی اس میں کچھ نیا نہیں ہے بس صرف اتنا ہے کہ اس میں بڑا جملہ اور بڑی غلط بیانی شامل ہے۔ غلط بیانی اس لئے کیونکہ صحت کےشعبہ کے لئے گزشتہ سال کل جی ڈی پی کی 1.4فیصد رقم مختص کی گئی تھی جو اس سال گھٹا کر 1.13فیصد کر دی گئی ہے۔ جب اس شعبہ کے لئے رقم کم کر دی گئی ہے اور شعبہ صحت پر ایک لاکھ کروڑ سےزیادہ کا مالی بوجھ ڈالنے کی بات کہی جا رہی ہے تو اس کو صرف بڑا جملہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔جیسے 2014کے عام انتخابات سے قبل نریندر مودی نے عوام سے کہا تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15لاکھ روپے آ جائیں گے۔
اس انشورنس اسکیم کو اگر لاگو کیا گیا تو حکومت کو پانچ لاکھ روپے کے حساب سے دس کروڑ خاندان کے لئے کم از کم 1.10لاکھ کروڑ روپے جمع کرنے ہوں گے یعنی فی خاندان کم از کم 15000روپے سا لانہ کا پریمیم حکومت کو انشورنس کمپنیوں کو دینا ہوگا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انشورنس کمپنیوں کو حکومت یہ پیسہ دیتی رہے گی لیکن کیا دس کروڑ خاندان اس کا استعمال کر پائیں گے۔ بالکل نہیں کر پائیں گے ،پہلے تو یہ کہ یہ صرف بیماری میں استعمال ہوگا اور ایسا نہیں ہے کہ دس کروڑ کے دس کروڑ لوگ بیمار ہوں گے دوسرا یہ کہ اس میں روز مرہ کی بیماریوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں انشورنس کمپنیوں سے پیسہ لینا کتنا مشکل کام ہے۔
صحت کے شعبہ کو جہاں بھی انشورنس سے جوڑا گیا ہے وہاں علاج کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسپتال اور ڈاکٹر انشورنس کمپنیوں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں اور’ اوور بلنگ‘(زیادہ بلنگ) کرتے ہیں ۔ مریض اور اس کے رشتہ دار اس لئے اس میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے کیونکہ ان کی جیب سے کچھ نہیں جا رہا جس کے نتیجے میں علاج کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ غریب اس انشورنس کی وجہ سے بڑے پرایئویٹ اسپتال میں علاج کرانے جائے گا مگر علاج کا 60فیصد حصہ وہ ہوتا ہے جو انشورنس میں نہیں آتا اور وہ مریض یا اس کے رشتہ داروں کو اپنی جیب سے ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے غریب اسپتال میں جا کر ایسا پھنس جائے گا کہ وہ جب تک اسپتال سے ٹھیک ہو کر گھر آئے گا اس وقت تک اس کا ایک بڑا اثاثہ ختم ہو چکا ہوگا۔
اس ہیلتھ انشورنس منصوبہ کو صرف اور صرف بڑا انشورنس گھوٹالہ کہا جا سکتا ہے جو عوام کی صحت کے نام پر کیا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں سن لیجئے گا کہ کسی مغربی ممالک کی بڑی انشورنس کمپنی کے پاس اس منصوبہ کا ٹھیکا ہو گا۔ عوام کی صحت کا اگر واقعی خیال تھا یا فکر تھی تو وزیر خزانہ گاؤں اور چھوٹے شہروں میں نئے اسپتال بنانے کا اعلان کرتے ، جہاں غریبوں کو مفت علاج فراہم کیا جاتا ۔ حکومت عوام کی صحت کے نام پر انشورنس کمپنیوں کو ملائی اور غریب کو میٹھا زہر دے رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Feb 2018, 11:24 AM