’آئی ایل اینڈ ایف ایس‘ پر مودی حکومت کا کنٹرول، ستیم فارمولے سے بچے گی کمپنی!
مرکزی حکومت نے آئی ایل اینڈ ایف ایس کو اپنے کنٹرول میں لے کر نئے بورڈ کی تشکیل کر دی ہے۔ اب نیا بورڈ یہ طے کرے گا کہ اسے ڈوبنے سے کیسے بچایا جائے۔
قرض میں ڈوبی آئی ایل اینڈ ایف ایس کو مرکزی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ حکومت نے اس کے لیے 6 رکنی بورڈ بھی تشکیل دے دی ہے۔ بورڈ کا صدر کوٹک مہندرا بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر اودے کوٹک کو بنایا گیا ہے۔ بورڈ میں ٹیک مہندرا کے سربراہ ونیت نیر، سابق سیبی چیئرمین جی این واجپئی، آئی سی آئی سی آئی بینک کے نان ایگزیکٹیو چیئرمین جی سی چترویدی، سابق آئی اے ایس افسر مالنی شنکر اور نند کشور کو رکن بنایا گیا ہے۔
آئی ایل اینڈ ایف ایس کا نیا بورڈ 8 اکتوبر کو میٹنگ کرے گا اور نیشنل کمپنی لاء ٹریبونل- این سی ایل ٹی کو فیصلے کی جانکاری دے گا۔ اس کے بعد کمپنی کو بچانے کا منصوبہ بنایا جائے گا جس کے لیے این سی ایل ٹی نے 31 اکتوبر کی تاریخ طے کی ہے۔
مرکزی وزارت مالیات نے ایک بیان جاری کر کہا ہے کہ ملک کے غیر بینک مالیاتی کمپنیوں میں نقدی کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔ ساتھ ہی حکومت کے اس قدم سے اکونومک مارکیٹ میں اعتماد بڑھے گا اور امید ہے کہ مالیاتی ادارے غیر بینکنگ مالیاتی کمپنیوں کو مدد دیں گے۔
غور طلب ہے کہ آئی ایل اینڈ ایف ایس پر 91 ہزار کروڑ کا قرض ہے اور وہ اپنے قرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے ساتھ کئی ریٹنگ ایجنسیوں نے آئی ایل اینڈ ایف ایس کی ریٹنگ گھٹا دی ہے۔ اس سے پہلے حکومت نے این سی ایل ٹی میں ایک عرضی دے کر آئی ایل اینڈ ایف سی کے بورڈ کو تحلیل کرنے کی گزارش کی تھی۔ حکومت نے کہا تھا کہ موجودہ بورڈ کو جاری رکھنے سے نقصان ہو سکتا ہے جو کہ عام لوگوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
حکومت نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب اتوار کو ہی آئی ایل اینڈ ایف ایس نے اعلان کیا کہ اس کے شیئر ہولڈروں نے بازار سے قرض اٹھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے قبل کمپنی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے قرض ادا کرنے اور ملکیتوں کے نمٹارے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت نے قرض میں ڈوبی کسی کمپنی کو بچانے کے لیے اپنے کنٹرول میں لیا ہے۔ اس سے پہلے 2009 میں بھی ستیم کے معاملے میں حکومت نے کمپنی کے بورڈ کو تحلیل کر اپنے قبضے میں لیتے ہوئے 10 رکنی ڈائریکٹورل بورڈ بنایا تھا۔ اس کا چیئرمین ایچ ڈی ایف سی کے چیئرمین دیپک پاریکھ کو بنایا گیا تھا۔ لیکن ستیم معاملے اور آئی ایل اینڈ ایف ایس کے کیس میں فرق یہ ہے کہ ستیم کے پروموٹر نے جب 15 ہزار کروڑ کے غبن کا اعتراف کیا اور امبانی ڈوبنے لگی تو تقریباً 50 ہزار لوگوں کی ملازمتوں پر خطرہ منڈلانے لگا تھا۔ اس وقت حکومت نے اس میں مداخلت کی اور پرائیویٹ ہاتھوں میں کمپنی کو سونپ کر اپنی دیکھ ریکھ میں نہ صرف کمپنی کو بچایا بلکہ ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں بھی محفوظ کیں۔
لیکن آئی ایل اینڈ ایف ایس کے معاملے میں مرکزی حکومت ایل آئی سی اور ایس بی آئی کے پیسے کا استعمال کر 60 فیصد والی اس کمپنی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آئی ایل اینڈ ایف ایس کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے مرکزی حکومت نے این سی ایل ٹی کے سامنے یہ تو کہا کہ اسے موجودہ مینجمنٹ نے بحران کے دور میں پہنچا دیا، لیکن اس مینجمنٹ کے اعلیٰ افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوگی یہ واضح نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔